تشریح:
توضیح: گھوڑے کا گوشت حلال اور طیب ہے۔ ہمارے ہاں اس کا رواج نہ ہونا الگ بات ہے۔ دیکھیے۔ (صحیح البخاري، الذبائع والصید، باب لحوم الخیل، حدیث:5519۔ و باب النحر و ذبح حدیث: 5511۔5510۔ و صحیح مسلم، الصید و الذبائح، باب إباحة أکل لحم الخیل، حدیث: 1942۔1941) اور یہ آخری روایت (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ضعیف ہے۔ اسے امام احمد بخاری۔ موسیٰ بن ہارون دراقطنی خطابی ابن عبد البر اور عبد الحق وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ علامہ البانی نے بھی اسے ضعیف سنن ابی دائود میں درج کیا ہے۔ بعض اہل علم سورہ نحل کی آیت مبارکہ (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (قرآن ۚ) (النحل۔8) اللہ نے گھوڑوں خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا۔ کہ تم ان پرسواری کرو۔ اور یہ تمہارے لئے باعث زینت بھی ہیں۔ سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ یہ جانور کھانے کےلئے نہیں ہیں۔ (لہذا حرام ہیں۔) ان حضرات کا استدلال صحیح نہیں۔ کیونکہ آیت کریمہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ یہ جانورمحض سواری اور زینت ہی کےلئے ہیں۔دیگر فوائد حاصل کرنا ناجائز ہیں۔ چونکہ مذکورہ فوائد اہم تر تھے، اس لئے قرآن کریم نے ان کا ذکرفرمایا ہے۔ جیسے کہ سورہ مائدہ میں ہے (قرآن) (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ) (المائدة:3) تم پرمردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔ اس میں خنزیر کے صرف گوشت کا ذکر ہوا ہے۔ کیونکہ اہم شے یہی ہے۔ حالانکہ دیگر اشیاء ہڈی اور دوسرے اجزاء کا بھی یہی حکم ہے اور ان کے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اس مذکورہ سیاق میں گھوڑے پر بوجھ لادنے کا ذکر بھی نہیں ہے۔ تو کیا گھوڑے پر بوجھ لادنا جائز سمجھ لیا جائے؟ یہ بات عقل ونقل کے سراسر خلاف ہوگی۔ اس طرح سے اس کے حرام ہونے کا استدلال بھی قطعا ً درست نہیں۔ شروع آیات میں ہے۔ (وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ) (النحل:5) اسی نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس ہیں۔ اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ اور کئی تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔ تو یہاں اہم فوائد کا ذکر کردیا گیا ہے۔ اور باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (معالم السنن وعون المعبود)