قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ بَدْءِ الْأَذَانِ)

حکم : صحیح 

498. حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الْخُتَّلِيُّ وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ وَحَدِيثُ عَبَّادٍ أَتَمُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ قَالَ زِيَادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: اهْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ كَيْفَ يَجْمَعُ النَّاسَ لَهَا، فَقِيلَ لَهُ: انْصِبْ رَايَةً عِنْدَ حُضُورِ الصَّلَاةِ، فَإِذَا رَأَوْهَا آذَنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ، قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ الْقُنْعُ –يَعْنِي: الشَّبُّورَ _وَقَالَ زِيَادٌ: شَبُّورُ الْيَهُودِ_، فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ، وَقَالَ: هُوَ مِنْ أَمْرِ الْيَهُودِ، قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ النَّاقُوسُ، فَقَالَ: هُوَ مِنْ أَمْرِ النَّصَارَى، فَانْصَرَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ وَهُوَ مُهْتَمٌّ لِهَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُرِيَ الْأَذَانَ فِي مَنَامِهِ، قَالَ: فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي لَبَيْنَ نَائِمٍ وَيَقْظَانَ إِذْ أَتَانِي آتٍ فَأَرَانِي الْأَذَانَ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَدْ رَآهُ قَبْلَ ذَلِكَ، فَكَتَمَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا، قَالَ: ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: >مَا مَنَعَكَ أَنْ تُخْبِرَنِي؟< فَقَالَ: سَبَقَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >يَا بِلَالُ قُمْ فَانْظُرْ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فَافْعَلْهُ<. قَالَ: فَأَذَّنَ بِلَالٌ. قَالَ أَبُو بِشْرٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو عُمَيْرٍ أَنَّ الْأَنْصَارَ تَزْعُمُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ، لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ يَوْمَئِذٍ مَرِيضًا لَجَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنًا.

مترجم:

498.

جناب ابو عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فکرمند ہوئے کہ کس طرح لوگوں کو نماز کے لیے (بروقت) جمع کیا جائے، تو آپ سے کہا گیا کہ نماز کے وقت جھنڈا بلند کر دیا کریں لوگ جب اسے دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو خبر کر دیا کریں گے مگر آپ ﷺ کو یہ رائے پسند نہ آئی، پھر نرسنگھے کا ذکر کیا گیا جیسے کہ یہود کا ہوتا ہے، یہ رائے بھی آپ ﷺ کو پسند نہ آئی اور فرمایا: ”یہ یہودیوں کا عمل ہے۔“ پھر آپ ﷺ سے ناقوس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ نصارٰی کا عمل ہے۔“ چنانچہ عبداللہ بن زید بن عبدربہ مجلس سے لوٹے تو اسی فکر میں غلطاں تھے جس میں کہ رسول اللہ ﷺ تھے، تو انہیں خواب میں اذان بتائی گئی۔ چنانچہ وہ صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو خبر دی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں سونے جاگنے کی کیفیت میں تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور مجھے اذان بتا گیا۔ (راوی نے کہا کہ) سیدنا عمر ابن خطاب بھی ان سے پہلے یہ اذان خواب میں دیکھ چکے تھے، مگر بیس دن تک خاموش رہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہمیں خبر دینے سے تمہیں کس چیز نے روکا تھا؟“ تو انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن زید مجھ سے سبقت لے گئے تھے، اس لیے مجھے حیاء آئی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے بلال! کھڑے ہو جاؤ، دیکھو جو عبداللہ بن زید تمہیں بتائے وہ کرو۔“ چنانچہ بلال نے اذان دی۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ ابوعمیر نے مجھے بتایا کہ انصاریوں کا خیال تھا کہ عبداللہ بن زید اگر ان دنوں بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ انہی کو مؤذن مقرر کرتے۔