تشریح:
1۔ دل میں آنے والے برے خیالات کو وسوسہ اور نیک خیالات کو الہام کہا جاتا ہے۔
2۔ وسوسہ اگرچہ بشریت کے لوازم سے ہے۔ مگر انبیاء ؑ اس بات سے معصوم ہیں۔ کہ اس قسم کےخیالات ان ک دل میں گھر کر جایئں۔ یا شک وشبہ کی حد تک پہنچ جایئں بالخصوص نبی ﷺ کے معجزہ شق وشرح صدر کے علاوہ وہ حدیث جس میں ہے کہ آپ کا قرین بھی اسلام قبول کرچکا ہے۔ وہ آپ کو خیر کےعلاوہ کچھ نہیں سمجھاتا۔ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث 2814) اس عصمت نبوت کی موید ہے۔
3۔ سورہ یونس مذکورہ آیت 94 میں لفظا تو نبیﷺ مخاطب ہیں۔ مگر درحقیقت دوسروں کو سنانا مقصود ہے۔ جیسے کہ بعد کی آیت نمبر 103 میں ہے۔ (قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي)(یونس۔۔۔104)
4۔ شکوک واوہام کا علاج قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجود ہے۔ ضروری ہے کہ انسان بارسوخ اصحاب علم سے استفادہ کرتا رہے، اگر اس مرض میں غفلت کی جائے تو یہ (شک) ترقی کرکے (امتراء) جدل اور (امتراء) ترقی کرکے تکذیب تک جا پہنچتا ہے۔ والعیاذ باللہ (تفسیر عثمانی سورہ یونس)