تشریح:
(1) یہ روایت ضعیف ہےاوربعض کےنزدیک (وَلَا نَهَارٍ) کے الفاظ ثابت نہیں۔ (یعنی سوکر اٹھنے کے بعد یہ اہتمام صرف رات کوکرتے تھے) (2) مسواک کرنے کےبہت سےفائدے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ مسواک اللہ تعالی کی رضا مندی کاذریعہ اور اس سےمنہ بھی پاک صاف ہوجاتا ہے، جیسا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےمروی رسول اللہ ﷺ کافرمان ہےکہ «السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ» (سنن نسائی، حدیث: 5) ’’مسواک، منہ کوپاک صاف کرنے والی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔،، (3) یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہےکہ اللہ تعالی کےپسندیدہ کام کرنے ہی سےاس کی رضامندی حاصل ہوتی ہے، لہذا مسواک کرتے وقت یہی نیت اورارادہ ہو کہ اس سے ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔ اطباء اور ڈاکٹر حضرات نے بھی اس کے بہت سے فائدے ذکرکیے ہیں۔ (4) مسواک کرنےسےمنہ اور حلق کی آلائشیں بکثرت زائل اورختم ہوجاتی ہیں۔ مسواک صرف دانتوں ہی تک محدود نہ رکھی جائے بلکہ زبان اور حلق کےقریب تک کی جائے، خصوصاً صبح سوکر اٹھنے پراسی طرح کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کایہی معمول تھا، آپ جب بھی سو کر بیدار ہوتے تو مسواک کرتے، اوراس میں مبالغہ کرتے جس کی وجہ سے آپ کے منہ مبارک سے ’’عَا عاَ، اُع اُع، اور اہ اہ،، کی آواز یں نکلتیں۔ (5) ہمارے پیش نظریہ بات ہونی چائیے کہ رسول اللہ ﷺ نےخود مسواک کااہتمام والتزام کیا ہے، نیز امت کوبھی اسی قدر تاکید فرمائی ہے اور اگر امت پر مشقت اور بارگراں کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ ﷺ اسے ہر وضو اور ہرنماز کےوقت ضرور ی قرار دیتے۔ (6) رسول اللہ ﷺ منہ کی ذرا سی بوکو بھی پسند نہ کرتے تھے اسی لیے سو کر اٹھتے تو فوراً مسواک کرتے۔