تشریح:
1. مذکورہ بالا چھ روایات ’’حدیث مسیئ الصّلاۃ‘‘ کے نام سے مشہورومعروف ہیں۔ (یعنی وہ آدمی جس نے غلط انداز میں نماز پڑھی تھی) اس کا نام خلاد بن رافعرضی اللہ عنہ ہے۔
2.علم نہ ہونے کے عذر سے انسان کے افعال عبادت کسی طور بھی جائز نہیں ہو سکتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ہرسلمان اپنے دین کا ضروری علم حاصل کرنے کا اہتمام کرے اور یہ فرض ہے۔
3۔ تعلیم و تربیت کی غرض سے طلبہ میں طلب علم اور اصلاح اغلاط کا داعیہ اجاگر کرنے کے لیے مربی کو مختلف انداز اختیار کرنے چاہیں- جیسے کہ رسول اللہﷺنے اس شخص سے دو تین بار نماز پڑھائی۔
4. اس حدیث میں نماز کے بہت سے مسائل آگے ہیں۔ ان کے متعلق ائمہ حدیث یہ کہتے ہیں کہ شاید وہ ان سے واقف تھا۔
5. وضوء کی با ترتیب تکمیل‘ اس کے بعد دعا‘ منفرد کے لیےاقامت‘ ابتدائے نماز کے لیے لفظ اللہ اکبر کی تخصیص‘ ثناء اور فاتحہ‘ قراءت قرآن‘ تکبیرات انتقال اور تسمیع‘ رکوع سجود میں کمر کو سیدھا رکھنا‘ بیٹھے ہوئے اقعاء کی بجائے پاؤں بچھانا۔