تشریح:
1۔ صلواۃ کے معنی شروع باب میں زکر ہوچکے ہیں۔
2۔ آل در اصل بمعنی شخص ہے۔ اوراس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جس کو دوسرے کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق ہو۔ اور یہ لفظ ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کی طرف مضاف ہوکراستعمال ہوتاہے۔ آل نبی سے مراد آپ ﷺ کے ر شتہ دار ہیں۔ اور بعض کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنھیں علم معرفت کے لہاٖظ سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تعلق ہو۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اہل دین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کہ علم کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں۔ ان کو آل نبی۔ اور امتہ بھی کہ سکتے ہیں۔ اوردوسرے جن کا علم وعمل سرسری سا اور تقلیدی سا ہوتا ہے۔ ان کو امت محمد کہہ سکتے ہیں آل محمد ﷺنہیں کہہ سکتے۔ اس طرح امت اور آل میں عموم خصوص کی نسبت ہے۔ یعنی ہر آل نبی آپ کی امت میں داخل ہے۔مگر ہر امتی آل نبی ﷺ نہیں تفصیل کےلئے دیکھیں۔ (مفردات راغب اصفہانی) احادیث صحیحہ اور درود کے مختلف صیغوں سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ نبی ﷺکے اہل بیت اور آل میں آل علی آل جعفر آل عقیل آل عباس۔ اذواج مطہرات اور آپﷺ کی تمام اولاد شامل ہیں۔
3۔ (کما صلیت) میں معروف تشبیہ نہیں کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے مشابہ کہا گیا ہو بلکہ اس میں ایک غیرمشہور امر کومشہور ومعروف کے ساتھ ملحق کر کے اذہان کے قریب کیا گیا ہے۔جیسے کہ اللہ کے نور کو چراغ کے نورسے مشابہت دی گئی ہے۔ (اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ) (النور 35) چونکہ ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم ؑ کی عظمت اور ان پر صلاۃ تمام طبقات میں مشہور معروف تھی۔ تو محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی اسی اندازسے صلاۃ کی عام تعلیم دی گئی۔ اس میں مقدار کا مفہوم شامل نہیں۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ چونکہ سیدناابراہیم ؑ کی آل میں انبیاء ورسل کثیر تعداد میں ہیں۔ اور ان میں خود رسول اللہ ﷺ بھی ہیں۔ تو ان سب کے لئے جس قدر صلاۃ نازل کی گئی ہے۔ اس عظیم مقدار کی صلاۃ صرف محمد رسول اللہ ﷺ اور آپﷺکی آل کے لئے طلب کی جا رہی ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (مرعاة المفاتحیح، شرح مشکوة المصابیح باب الصلوة علی النبي، حدیث: 924)
الحکم التفصیلی:
(قلت: هذا إسناد ضعيف؛ حبان بن يسار وهو ضعيف لاختلاطه، وقد اختلف عليه في إسناده) . إسناده: حدثنا موسما بن إسماعيل: ثنا حبان بن يسار الكلابي... قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير حبان هذا، فهو ضعيف، ذكره الذهبي في الميزان ، فقال: قال أبو حاتم: ليس بالقوي، ولا بالمتروك. وقال ابن عدي: حديثه فيه ما فيه. وذكره ابن حبان في الثقات . والبخاري في الضعفاء ؛ فأشار إلى أنه تغير . وقال الحافظ: صدوق، أختلط . قلت: وقد اختلف عليه في إسناده كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري في التاريخ الكبير (2/1/81) ، فقال: وقال موسي : حدثنا حبان بن يسار... به. وقال الحافظ في الفتح (11/131) : وأخرجه النسائي من الوجه الذي أخرجه منه أبو داود، ولكن وقع في السند اختلاف بين موسى بن إسماعيل، وبين عمرو بن عاصم- شيخ شيخ النسائي فيه-، فروياه معاً عن حبان بن يسار، فوقع في رواية موسى عنه: عن عبيد الله بن طلحة عن محمد بن علي... وفي رواية عمرو بن عاصم عنه: عن عبد الرحمن ابن طلحة عن محمد بن علي عن محمد ابن الحنفية عن أبيه علي بن أبي طالب. ورواية موسى أرجح. ويحتمل أن يكون لحبان فيه سندان ! قلت: وهذا احتمال بعيد عند ؛ بل الأقرب أن الاختلاف من حبان نفسه؛ لاختلاطه. ورواية عمرو بن عاصم عنه قد أخرجها الدوْلابي أيضاً في الكنى (1/173) .