Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Wearing Perfume While Entering The State Of Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1746.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ گویا میں کستوری کی اس چمک کو دیکھ رہی ہوں جو رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں لگی ہوتی جب کہ آپ ﷺ احرام میں ہوتے۔
تشریح:
(1) اثنائے احرام خوشبو استعمال نہیں کی جا سکتی البتہ احرام کی تیاری کے وقت غسل کرتے اور لباس بدلتے ہوئے احرام سے پہلے پہلے خوشبو لگا لینا سنت ہے۔ ایسے ہی دس ذوالحج کو طواف افاضہ کے موقع پر۔ (2) اس خوشبو کا رنگ اور اثر حالت احرام میں باقی رہے تو کوئی حرج نہیں۔ (3) محرم کو چاہیے کہ حالت احرام میں غسل کے لیے ایسا صابن استعمال کرے جس میں عطریات شامل نہ ہوں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه ،وكذا البخاري وابن الجارود) .إسناده: حدثنا محمد بن الصباح البَزازُ: ثنا إسماعيل بن زكريا عن الحسن ابن عبيد الله عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير الحسن بن عبيد الله- وهو النَخَعِي الكوفي-، فهو على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.والحديث أخرجه مسلم (4/12) ، والنسائي (2/11) من طريق سفيان عن الحسن بن عبيد الله... به.وأخرجاه هما، والبخاري (1/303) ، و البيهقي، وأحمد (6/109 و 124و 128 و 173 و 175 و 186 و 191 و 212 و 224 و 230 و 245 و 254 و 264 و 267و280) من طرق أخرى عن إبراهيم... به.وتابعه جماعة عن الأسود... به: عند أحمد (6/209 و 236 و 250) .وله طرق أخرى كثيرة عن عائشة، تقدم في الكتاب أحدها، مع إشارتي تحته إلى سائرها.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ گویا میں کستوری کی اس چمک کو دیکھ رہی ہوں جو رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں لگی ہوتی جب کہ آپ ﷺ احرام میں ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اثنائے احرام خوشبو استعمال نہیں کی جا سکتی البتہ احرام کی تیاری کے وقت غسل کرتے اور لباس بدلتے ہوئے احرام سے پہلے پہلے خوشبو لگا لینا سنت ہے۔ ایسے ہی دس ذوالحج کو طواف افاضہ کے موقع پر۔ (2) اس خوشبو کا رنگ اور اثر حالت احرام میں باقی رہے تو کوئی حرج نہیں۔ (3) محرم کو چاہیے کہ حالت احرام میں غسل کے لیے ایسا صابن استعمال کرے جس میں عطریات شامل نہ ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں اور آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said: I still seem to see the glistening of the perfume where the hair was parted on the head of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) while he was wearing Ihram.