Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: A Muhrim Being Cupped)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1837.
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت احرام اپنے پاؤں کی پشت پر، ایک تکلیف کی وجہ سے سینگی لگوائی۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ابن ابی عروبہ نے اس روایت کو قتادہ سے مرسل بیان کیا۔ (یعنی جناب انس کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔)
تشریح:
1۔ سینگی لگوانا اور فصد کھلوانا اس دور کا معروف طریقہ علاج تھا۔ اور مذکورہ بالا احادیث میں دو مختلف واقعات کا بیان آیا ہے۔ 2۔ اب بھی بوقت ضرورت اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس عمل میں بالوں کی جگہ سے بال کاٹے جاتے ہیں۔ جلد پر چیرالگایا جاتا ہے۔ پس اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم کئی ایک فقہاء بال کاٹنے کی بنا پر فدیہ کے قائل ہیں۔ نیز دانت نکلوانے یا کسی عمل جراحی کی صورت میں کوئی فدیہ لازم نہیں آتا۔ 3۔ بیماری میں علاج کرانا سنت رسول ﷺ ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: يشير إلى إعلاله بالإرسال؛ لأن ابن أبي عروبة أحفظ من معمر،ولم يجاوز به قتادة، وله علة أخرى، وهي المخالفة؛ فقد رواه الضياء المقدسي في المختارة من طريق أخرى عن أنس بلفظ: من وجع كان برأسه ، وإسناده صحيح، وهو الموافق لحديث ابن عباس وابن بحينة في صحيح البخاري ،وهو في الكتاب الآخر (1611) ) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر...
قلت: وهذا إسناد ظاهره الصحة، فإن رجاله ثقات رجال الشيخين. لكن أعله المصنف تبعاً لشيخه الإمام أحمد بمخالفة سعيد بن أبي عروبة؛ فإنه أرسله، قال الحافظ: وسعيد أحفظ من معمر، وليست هذه بعلة قادحة، والجمع بين حديثي ابن عباس وأنس واضح بالحمل على التعدد .
قلت: حديث ابن عباس الذي يشير إليه أخرجه المصنف في الباب قبل حديث أنس هذا ولفظه: في رأسه ، وهو في الكتاب الآخر (1611) (الحديث السابق. (الناشر) . بروايةالبخاري وغيره، وذكر له هناك شاهداً من حديث ابن بُحَيْنَةَ، فهو أقوى من حديث أنس، وقد جمع الحافظ بينهما بما سمعت، وهو جمع حسن معهود في مثل هذاالمقام، لولا أني رأيت الضياء المقدسي قد أخرج الحديث في المختارة (3/102) من طرق عن المعتمر بن سليمان قال: سمعت حميداً يحدث عن أنس:أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احتجم وهو محرم من وجع كان برأسه.وهذا إسناد صحيح، وأصله في المسند (3/164) سنداً ومتناً.وأخرجه ابن حبان (1400) ، والحاكم (1/453) ، وقال: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! مشياً على ظاهر الإسناد.ثم وجدت له شاهداً من حديث جابر من طريقين عنه، فلينقل إلى الصحيح ، وقد ذكرته فيه تحت الحديث (615) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت احرام اپنے پاؤں کی پشت پر، ایک تکلیف کی وجہ سے سینگی لگوائی۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ابن ابی عروبہ نے اس روایت کو قتادہ سے مرسل بیان کیا۔ (یعنی جناب انس کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔)
حدیث حاشیہ:
1۔ سینگی لگوانا اور فصد کھلوانا اس دور کا معروف طریقہ علاج تھا۔ اور مذکورہ بالا احادیث میں دو مختلف واقعات کا بیان آیا ہے۔ 2۔ اب بھی بوقت ضرورت اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس عمل میں بالوں کی جگہ سے بال کاٹے جاتے ہیں۔ جلد پر چیرالگایا جاتا ہے۔ پس اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم کئی ایک فقہاء بال کاٹنے کی بنا پر فدیہ کے قائل ہیں۔ نیز دانت نکلوانے یا کسی عمل جراحی کی صورت میں کوئی فدیہ لازم نہیں آتا۔ 3۔ بیماری میں علاج کرانا سنت رسول ﷺ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگر پچھنے (سینگی) لگانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ لازم ہوگا، اسی لئے بعض علماء نے سرے سے محرم کے لئے پچھنا لگوانے کو مکروہ جانا ہے، ورنہ حقیقت میں حالت احرام میں پچھنا لگوانا مکروہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had himself cupped on the surface of his foot because of a pain in it while he was in the sacred state (wearing ihram). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: I heard Ahmad say: "Ibn Abi 'Arubah narrated it in Mursal form". Meaning from Qatadah.