Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding The Fidyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1856.
سیدنا کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”تمہارے سر کی جوؤں نے تمہیں ایذا دے رکھی ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں! تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”سر منڈا لو اور پھر ایک بکری قربانی کر دو یا تین دن روزے رکھو یا تین صاع کھجور چھ مسکینوں میں تقسیم کر دو۔“
تشریح:
1۔ اعمال حج میں کیس تقصیر پرمشروع قربانی صدقہ یا روزہ رکھنا فدیہ کہلاتا ہے۔ بمعنی عوض یا بدل 2۔ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے۔ اور ایک مد تقریباً 9 چھٹانک کا۔ تین صاع چھ مسکینوں پر تقسیم کریں گے۔ تو ہر مسکین کو دو مد (18چھٹا نک) ملیں گے۔ پس یہی فدیے کا حساب ہوا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه، وأخرجه الشيخان والترمذي- وصححه- نحوه) .إسناده: حدثنا وهب بن بقية عن خالد الطَّحَان عن خالد الحَذاء عن أبي قلابة عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن كعب بن عُجْرَةَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير وهب بن بقية، فهو على شرط مسلم وحده، وقد أخرجه كما يأتي.والحديث أخرجه مسلم (4/21) ، والبيهقي (5/55) من طرق أخرى عن خالد بن عبد الله- وهو الطحان-... به.وتابعه وُهَيْبٌ : ثنا خالد عن أبي قلابة... به: أخرجه أحمد (4/242) .وتابعه عنده أيضاً (4/241) : هشيم: أنا خالد عن أبي قلابة عن كعب بن عجرة... به نحوه؛ لم يذكر في سنده: عبد الرحمن بن أبي ليلى؛ وزاد:ونزلت الآية.وأخرجه الشيخان وغيرهما من طرق أخرى عن عبد الرحمن بن أبي ليلى...به نحوه.وتابعه جماعة عن كعب، وقد خرجت أحاديثهم في الإرواء (1040) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”تمہارے سر کی جوؤں نے تمہیں ایذا دے رکھی ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں! تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”سر منڈا لو اور پھر ایک بکری قربانی کر دو یا تین دن روزے رکھو یا تین صاع کھجور چھ مسکینوں میں تقسیم کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ اعمال حج میں کیس تقصیر پرمشروع قربانی صدقہ یا روزہ رکھنا فدیہ کہلاتا ہے۔ بمعنی عوض یا بدل 2۔ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے۔ اور ایک مد تقریباً 9 چھٹانک کا۔ تین صاع چھ مسکینوں پر تقسیم کریں گے۔ تو ہر مسکین کو دو مد (18چھٹا نک) ملیں گے۔ پس یہی فدیے کا حساب ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟“ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حدیث آیت کریمہ (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ) (سورۃ بقرۃ: ۱۹۶) کی تفسیر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ka’ab bin ‘Ujrah (RA) said that the Apostle of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) came upon him (during their stay) at Al Hudaibiyyah. He asked do the insects of your head (lice) annoy you? He said Yes. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said Shave your head, then sacrifice a sheep as offering or fast three days or give three sa’s of dates to six poor people.