Abu-Daud:
Funerals (Kitab Al-Jana'iz)
(Chapter: Visiting The Sick)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3094.
سیدنا اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ابی (منافق) کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اس بیماری میں جس میں کہ وہ مر گیا تھا۔ چنانچہ جب آپ ﷺ اس کے ہاں پہنچے تو آپ ﷺ نے اس پر موت کے اثرات محسوس کیے (اور) فرمایا: ”میں تجھے منع کیا کرتا تھا کہ یہود سے محبت نہ رکھ۔“ اس نے کہا: اسعد بن زرادہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا ہوا؟ پھر جب وہ مر گیا تو اس کا بیٹا (عبداللہ ؓ) آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اﷲ کے نبی! بیشک عبداللہ بن ابی مر گیا ہے، تو آپ مجھے اپنی قمیص عنایت فرما دیں کہ میں اسے اس میں کفن دوں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی قمیص اتار کر اسے دے دی۔
تشریح:
1۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ تاہم قمیص کا قصہ صحیح ثابت ہے۔ (علامہ البانی) 2۔ مسلمان کی عیادت کےلئے جانا ایک شرعی حق ہے۔ اسی طرح کسی غلط کردارشخص کی عیادت کے لئے بھی جایا جا سکتا ہے۔ اور یہ یقینا اسلامی اخلاق ومروت کا حصہ ہے۔ 3۔ اس منافق کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خالص مومن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے شاید اپنے اس محب مخلص کی دلداری کےلئے اپنی قیمص عنایت فرما دی تھی۔ اور یہ عمل ایک بیٹے کا اپنے باپ کے کئے ایک ادنیٰ سا حیلہ تھا کہ شاید اس کی برکت سے اسے کچھ فائدہ ہوجائے۔ اور یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺنے اس طرح سے اس منافق کے ایک احسان کا بدلہ چکایا تھا۔ کہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قید کرلئے گئے۔ تو ان کے پاس قمیص نہ تھی۔ تو عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ اس سے انکار نہ فرمایا کرتے تھے۔ اور یوں بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ عمل اس وقت کا ہو جب کہ یہ حکم نازل نہ ہوا تھا۔ (وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ)(التوبہ۔84/9) ان منافقوں میں سے جب کوئی مر جائے تو آپ اس کا جنازہ مت پڑھیں۔اوراس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں۔ (عون المعبود)
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
سیدنا اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ابی (منافق) کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اس بیماری میں جس میں کہ وہ مر گیا تھا۔ چنانچہ جب آپ ﷺ اس کے ہاں پہنچے تو آپ ﷺ نے اس پر موت کے اثرات محسوس کیے (اور) فرمایا: ”میں تجھے منع کیا کرتا تھا کہ یہود سے محبت نہ رکھ۔“ اس نے کہا: اسعد بن زرادہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا ہوا؟ پھر جب وہ مر گیا تو اس کا بیٹا (عبداللہ ؓ) آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اﷲ کے نبی! بیشک عبداللہ بن ابی مر گیا ہے، تو آپ مجھے اپنی قمیص عنایت فرما دیں کہ میں اسے اس میں کفن دوں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی قمیص اتار کر اسے دے دی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ تاہم قمیص کا قصہ صحیح ثابت ہے۔ (علامہ البانی) 2۔ مسلمان کی عیادت کےلئے جانا ایک شرعی حق ہے۔ اسی طرح کسی غلط کردارشخص کی عیادت کے لئے بھی جایا جا سکتا ہے۔ اور یہ یقینا اسلامی اخلاق ومروت کا حصہ ہے۔ 3۔ اس منافق کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خالص مومن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے شاید اپنے اس محب مخلص کی دلداری کےلئے اپنی قیمص عنایت فرما دی تھی۔ اور یہ عمل ایک بیٹے کا اپنے باپ کے کئے ایک ادنیٰ سا حیلہ تھا کہ شاید اس کی برکت سے اسے کچھ فائدہ ہوجائے۔ اور یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺنے اس طرح سے اس منافق کے ایک احسان کا بدلہ چکایا تھا۔ کہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قید کرلئے گئے۔ تو ان کے پاس قمیص نہ تھی۔ تو عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ اس سے انکار نہ فرمایا کرتے تھے۔ اور یوں بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ عمل اس وقت کا ہو جب کہ یہ حکم نازل نہ ہوا تھا۔ (وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ)(التوبہ۔84/9) ان منافقوں میں سے جب کوئی مر جائے تو آپ اس کا جنازہ مت پڑھیں۔اوراس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں۔ (عون المعبود)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ ﷺ اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: ”میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا۔“ اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ ﷺ نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usamah b. Zaid (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) went out to visit 'Abd Allah b. Ubayy during his illness of which he died. When he entered upon him, he realised death on him. He said: I used to forbid you from the love of Jews. He ('Abd Allah) said: As'ad b. Zurarah hated them. So what (the benefited)? When he died, his son came and said: Prophet of Allah, 'Abd Allah b. Ubayy has died, give me your shirt, so that I shroud him in it. The Messenger of Allah (ﷺ) took off his shirt and gave it to him.