مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3382.
سیدنا علی ؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جو کاٹ کھانے والا ہو گا، صاحب وسعت (صاحب مال) اپنے مال کو اپنے دانتوں سے پکڑے ہو گا (کہ صدقہ کرے گا نہ قرضہ دے گا بلکہ بخیل بنا رہے گا) حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”آپس میں احسان کرنے کو مت بھولو۔“ اور مجبور لوگ (مجبوری کی وجہ سے) بیع کریں گے حالانکہ نبی کریم ﷺ نے مجبوری کی بیع سے منع فرمایا ہے اور دھوکے کی بیع اور پھلوں کے تیار ہو جانے سے پہلے انہیں فروخت کر دینے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم مجبوری کی بیع دو طرح سے ہے۔ کوئی ظالم کسی کو جبر واکراہ سے اپنی چیز فروخت کرنے پرمجبور کردے تو یہ بیع فاسد ہے۔ انسان مقروض ہو اورقرضے کی ادایئگی کےلئے مجبور اپنی لازمی ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کرنے لگے۔ یہ بیع ہوتوجاتی ہے۔ مگر یہ بات آداب اسلامی کے خلاف ہے کہ اونے پونے ایسی چیزیں خریدی جایئں۔ مقروض کو مہلت دی جانی چاہیے۔ اور اس کے ساتھ حتیٰ الامکان تعاون کیا جانا چاہے۔ جیسےکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 237 میں آیا ہے۔ البتہ مقروض زائد ضرورت چیزوں کوفروخت کردے تو کوئی حرج نیں اسی طرح حربی لوگوں کو بھی علی الاطلاق اپنی اشیاء بیچنے پرمجبور کرنا جائز نہیں تاہم اگر انہیں سزا دینا مقصود ہو تو سزا کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے۔ کہ انہیں اپنی چیزیں بیچ کر نکل جانے کا حکم دے دیا جائے جس طرح بنو نضیر کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
سیدنا علی ؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جو کاٹ کھانے والا ہو گا، صاحب وسعت (صاحب مال) اپنے مال کو اپنے دانتوں سے پکڑے ہو گا (کہ صدقہ کرے گا نہ قرضہ دے گا بلکہ بخیل بنا رہے گا) حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”آپس میں احسان کرنے کو مت بھولو۔“ اور مجبور لوگ (مجبوری کی وجہ سے) بیع کریں گے حالانکہ نبی کریم ﷺ نے مجبوری کی بیع سے منع فرمایا ہے اور دھوکے کی بیع اور پھلوں کے تیار ہو جانے سے پہلے انہیں فروخت کر دینے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم مجبوری کی بیع دو طرح سے ہے۔ کوئی ظالم کسی کو جبر واکراہ سے اپنی چیز فروخت کرنے پرمجبور کردے تو یہ بیع فاسد ہے۔ انسان مقروض ہو اورقرضے کی ادایئگی کےلئے مجبور اپنی لازمی ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کرنے لگے۔ یہ بیع ہوتوجاتی ہے۔ مگر یہ بات آداب اسلامی کے خلاف ہے کہ اونے پونے ایسی چیزیں خریدی جایئں۔ مقروض کو مہلت دی جانی چاہیے۔ اور اس کے ساتھ حتیٰ الامکان تعاون کیا جانا چاہے۔ جیسےکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 237 میں آیا ہے۔ البتہ مقروض زائد ضرورت چیزوں کوفروخت کردے تو کوئی حرج نیں اسی طرح حربی لوگوں کو بھی علی الاطلاق اپنی اشیاء بیچنے پرمجبور کرنا جائز نہیں تاہم اگر انہیں سزا دینا مقصود ہو تو سزا کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے۔ کہ انہیں اپنی چیزیں بیچ کر نکل جانے کا حکم دے دیا جائے جس طرح بنو نضیر کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بنو تمیم کے ایک شیخ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابوطالب ؓ نے ہمیں خطبہ دیا، یا فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جو کاٹ کھانے والا ہو گا، مالدار اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے رہے گا (کسی کو نہ دے گا) حالانکہ اسے ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَلَا تَنْسَوْا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ) ”اللہ کے فضل بخشش و انعام کو نہ بھولو یعنی مال کو خرچ کرو۔“ (سورة البقرہ: ۲۳۸) مجبور و پریشاں حال اپنا مال بیچیں گے حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے لاچار و مجبور کا مال خریدنے سے اور دھوکے کی بیع سے روکا ہے، اور پھل کے پکنے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی ضرورت مند کے مال کو سستا خریدنے سے یا زبردستی کسی کا مال خریدنے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پختگی سے پہلے پھل بیچنے سے منع کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): A time is certainly coming to mankind when people will bite each other and a rich man will hold fast, what he has in his possession (i.e. his property), though he was not commanded for that. Allah, Most High, said: "And do not forget liberality between yourselves". The men who are forced will contract sale while the Prophet (ﷺ) forbade forced contract, one which involves some uncertainty, and the sale of fruit before it is ripe.