Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Praying In Women's Shu'ur (Garments))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
367.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے کپڑوں یا لحافوں میں نماز نہ پڑھا کرتے تھے۔ (یعنی بالعموم) عبیداللہ نے کہا «شعرنا أو في لحفنا» کے الفاظ میں میرے والد کو شک ہوا ہے۔
تشریح:
(شعا) وہ کپڑا ہوتا ہے جو بالخصوص جسم سے متصل ہو۔ اور صحت نماز کے لیے کپڑے اور جگہ کا پاک ہونا شرط ہے۔ اگر چادر، کمبل، لحاف یادری وغیرہ ناپاک ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ ہاں اگر اعتماد ہو کہ کپڑا پاک ہے تو کوئی حرج نہیں۔ امام صاحب نے’’عورت کے کپڑوں،، کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ محض جسم سے مُلا مَسَت (لگنے) کی وجہ سے کپڑا نجس نہیں ہوتا۔
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے کپڑوں یا لحافوں میں نماز نہ پڑھا کرتے تھے۔ (یعنی بالعموم) عبیداللہ نے کہا «شعرنا أو في لحفنا» کے الفاظ میں میرے والد کو شک ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(شعا) وہ کپڑا ہوتا ہے جو بالخصوص جسم سے متصل ہو۔ اور صحت نماز کے لیے کپڑے اور جگہ کا پاک ہونا شرط ہے۔ اگر چادر، کمبل، لحاف یادری وغیرہ ناپاک ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ ہاں اگر اعتماد ہو کہ کپڑا پاک ہے تو کوئی حرج نہیں۔ امام صاحب نے’’عورت کے کپڑوں،، کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ محض جسم سے مُلا مَسَت (لگنے) کی وجہ سے کپڑا نجس نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے شعار یا لحافوں میں نماز نہیں پڑھتے تھے۱؎۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ شک میرے والد (معاذ) کو ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: شعار وہ کپڑا ہے جو عورت کے بدن سے لگا رہے اور لحاف اوڑھنے کی چادر کو کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کپڑوں میں نماز اس وجہ سے نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ان میں حیض کا خون نہ لگ گیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) would not pray in our wrappers or in our quilts. 'Ubaydullah said: My father (Mu'adh) doubted this.