قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابُ بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لَا يَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّيَّةِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1478. وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ النَّاسَ جُلُوسًا بِبَابِهِ، لَمْ يُؤْذَنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ، قَالَ: فَأُذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ، فَدَخَلَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَوَجَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا حَوْلَهُ نِسَاؤُهُ، وَاجِمًا سَاكِتًا، قَالَ: فَقَالَ: لَأَقُولَنَّ شَيْئًا أُضْحِكُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ رَأَيْتَ بِنْتَ خَارِجَةَ، سَأَلَتْنِي النَّفَقَةَ، فَقُمْتُ إِلَيْهَا، فَوَجَأْتُ عُنُقَهَا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «هُنَّ حَوْلِي كَمَا تَرَى، يَسْأَلْنَنِي النَّفَقَةَ»، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ يَجَأُ عُنُقَهَا، فَقَامَ عُمَرُ إِلَى حَفْصَةَ يَجَأُ عُنُقَهَا، كِلَاهُمَا يَقُولُ: تَسْأَلْنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ، فَقُلْنَ: وَاللهِ لَا نَسْأَلُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا أَبَدًا لَيْسَ عِنْدَهُ، ثُمَّ اعْتَزَلَهُنَّ شَهْرًا - أَوْ تِسْعًا وَعِشْرِينَ - ثُمَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةُ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ} [الأحزاب: 28] حَتَّى بَلَغَ {لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا} [الأحزاب: 29]، قَالَ: فَبَدَأَ بِعَائِشَةَ، فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْرِضَ عَلَيْكِ أَمْرًا أُحِبُّ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَشِيرِي أَبَوَيْكِ»، قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَتَلَا عَلَيْهَا الْآيَةَ، قَالَتْ: أَفِيكَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَسْتَشِيرُ أَبَوَيَّ؟ بَلْ أَخْتَارُ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ لَا تُخْبِرَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِكَ بِالَّذِي قُلْتُ، قَالَ: «لَا تَسْأَلُنِي امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ إِلَّا أَخْبَرْتُهَا، إِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا، وَلَا مُتَعَنِّتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا

مترجم:

1478.

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگ رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے پایا۔ ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی تھی۔ کہا: ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت ملی تو وہ اندر داخل ہو گئے، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، انہوں نے اجازت مانگی، انہیں بھی اجازت مل گئی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین اور خاموش بیٹھے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد تھیں۔ کہا: تو انہوں (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں گا۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنت خارجہ کو دیکھتے جب اس نے مجھ سے نفقہ کا سوال کیا تو میں اس کی جانب بڑھا اور اس کی گردن دبا دی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ اور فرمایا: ’’یہ بھی میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسے تم دیکھ رہے ہو، اور مجھ سے نفقہ مانگ رہی ہیں۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ی جانب اٹھے اور ان کی گردن پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حفصہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ی جانب بڑھے اور وہ ان کی گردن پر مارنا چاہتے تھے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اس سے روک دیا۔) (مسند احمد: 3/ 328) اور دونوں کہہ رہے تھے: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کا سوال کرتی ہو جو ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ کہنے لگیں: اللہ کی قسم! آج کے بعد ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ کے پاس نہ ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ یا انتیس دن تک کے لیے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دو۔) حتی کہ یہاں پہنچ گئے: (تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بڑا اجر ہے۔) (جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا حضرت عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا س‬ے کی اور فرمایا: ’’اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کر رہا ہوں اور پسند کرتا ہوں کہ تم، اپنے والدین سے مشورہ کر لینے تک اس میں جلدی نہ کرنا۔‘‘ انہوں نے کہا: کیا میں آپ کے بارے میں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے والدین سے مشورہ کروں گی! بلکہ میں تو اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چُنتی ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ جو میں نے کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے کسی کو اس کی خبر نہ دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے جو بھی پوچھے گی میں اسے بتا دوں گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘