قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

162. حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ، وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ، وَدُونَ الْبَغْلِ، يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ»، قَالَ: «فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ»، قَالَ: «فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ»، قَالَ " ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ، وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنَ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: َ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ، فَرَحَّبَ بِي، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقِيلَ: مَنَ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّاءَ، صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمَا، فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنَ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا هُوَ قَدِ اُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قَالَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} [مريم: 57]، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَحَّبَ، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلَالِ "، قَالَ: " فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ، فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا، فَأَوْحَى اللهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى، فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ "، قَالَ: " فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي، فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ "، قَالَ: " فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً "، قَالَ: " فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ "، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ".

مترجم:

162.

شیبان بن فروخؒ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہؒ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانیؒ نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیا، جس کے ساتھ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا، تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔ جبریل علیہ السلام نے (دروازہ) کھولنے کو کہا، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: اور (کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا، تو میں اچانک آدم علیہ السلام کے سامنے تھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا، اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ تو ہمارے لیےدروازہ کھول دیا گیا، اب میں دو خالہ زاد بھائیوں، عیسیٰ ابن مریم یحیی بن زکریا علیہم السلام کے سامنے تھا (اللہ ان دونوں پررحمت اور سلامتی بھیجے)۔ دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمیں اوپر تیسرے آسمان تک لے گئے، جبریل نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا‎: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا، وہ ایسے تھے کہ (انسانوں کا) آدھا حسن انہیں عطا کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں اوپر چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تب میرے سامنے ادریس علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان:’’ہم نے اسے (ادریس کو) بلند مقام تک رفعت عطا کی۔‘‘ پھر ہمیں اوپر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا: آپ کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: ان کے لیے پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں بھیجا گیا تھا، چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات ہارون علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل! کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا کیا: کیا انہیں پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا۔ کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل! کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے ) داخل ہوتے ہیں، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس (آکر داخل) نہیں ہو سکتے۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے سدرۃ المنتھیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کے درخت) کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں اور اس کے بیر مٹکوں کی طرح ہیں، جب اللہ کے حکم سے جس چیز نے  اسے ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا، تو وہ بدل گئی، اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اس کے حسن کا وصف بیان کر سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی جو کی، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں، کیونکہ آپ کی امت (کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس (اتنی نمازیں پڑھنے کی) طاقت نہ ہو گی۔ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ  علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور (اجر میں) ہر نماز کے لیے دس ہیں، (اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں اور جو کوئی ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن عمل نہ کرے گا، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ (اس ارادے پر) عمل کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی ایک برائی کا ارادہ کرے گا اور (وہ برائی) کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اسے کر لے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام  کے پاس پہنچا تو انہیں خبر دی، انہوں نےکہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے (مزید) تخفیف کی درخواست کریں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نےکہا: میں اپنے رب کے پاس (بار بار) واپس گیا ہوں حتی کہ میں اس سے شرمندہ ہو گیا ہوں۔‘‘