قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

194. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَاتَّفَقَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ إِلَّا مَا يَزِيدُ أَحَدُهُمَا مِنَ الْحَرْفِ بَعْدَ الْحَرْفِ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً فَقَالَ: " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَمَا لَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ؟ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: ائْتُوا آدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى الْأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ فَضَّلَكَ اللهُ بِرِسَالَاتِهِ، وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، وَكَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونِّي فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَغَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَأَنْطَلِقُ، فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابُِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".

مترجم:

194.

ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت کی، انہوں نےکہا: ایک دن رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی، کیونکہ آپ  ﷺ کو مرغوب تھی۔  آپ نے اپنے دندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور (اللہ کی) نظر سب کے آر پار (سب کو دیکھ رہی) ہو گی، سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جو ان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے  سے کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں! تم کس حالت میں ہو؟  کیا دیکھتے نہیں! تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: آدم ﷤ کے پاس چلو، تو وہ آدم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے آدم! آپ سب انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا، تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا  آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟  آدم ؑ جواب دیں گے: میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا، اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت (کےقریب جانے) سے روکا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوحؑ کے پاس جاؤ۔ لوگ نوحؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ (اہل) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں، اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟  آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے: آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا، نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا (خاص کی گئی) تھی، وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی۔ (آج تو) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! چنانچہ لوگ ابراہیم ؑ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل (صرف اس کے دوست) ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو ابراہیم ؑ ان سے کہیں گے: میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا، اور اپنے (تین) جھوٹ یاد کریں گے، (اور کہیں) مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے۔ کسی اورکے پاس جاؤ، موسیٰؑ کے پاس جاؤ! لوگ موسیٰؑ کے خدمت میں حاضر ہوں گے، اورعرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کےرسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟  آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ موسیٰؑ ان سے کہیں گے: میرا   رب آج اس قدر غصے میں ہے، کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا۔ میری جان(کا کیا ہو گا) میری جان ( کیسے بچے گی؟) عیسیٰؑ کے پا س جاؤ! لوگ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰؑ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریمؑ  کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو عیسیٰؑ انہیں جواب دیں گے: میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا، اور نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، (کہیں گے مجھے) اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، محمدﷺ کے پاس جاؤ! لوگ میرے پاس آئین گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کر دیے، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا (کے دروازے) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے، پھر (اللہ) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے! آپ کو ملے گا۔ سفارش کیجیے! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اےمیرے رب! میری امت! میری امت! تو کہا جائے گا: اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں، ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے، اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں (بھی) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا (فاصلہ) ہے جتنا مکہ اور (شہر ہجر) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے۔‘‘