قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ (بَابُ بَيَانِ أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

642. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعِشَاءَ، الَّتِي يَقُولُهَا النَّاسُ الْعَتَمَةَ، إِمَامًا وَخِلْوًا؟ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَعْتَمَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ الْعِشَاءَ، قَالَ: حَتَّى رَقَدَ نَاسٌ وَاسْتَيْقَظُوا، وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَرَجَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى شِقِّ رَأْسِهِ، قَالَ: «لَوْلَا أَنْ يَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا كَذَلِكَ»، قَالَ: فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً، كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ كَمَا أَنْبَأَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ شَيْئًا مِنْ تَبْدِيدٍ، ثُمَّ وَضَعَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ عَلَى قَرْنِ الرَّأْسِ، ثُمَّ صَبَّهَا، يُمِرُّهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ، حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامُهُ طَرَفَ الْأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ، ثُمَّ عَلَى الصُّدْغِ وَنَاحِيَةِ اللِّحْيَةِ، لَا يُقَصِّرُ وَلَا يَبْطِشُ بِشَيْءٍ، إِلَّا كَذَلِكَ، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: " كَمْ ذُكِرَ لَكَ أَخَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ عَطَاءٌ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أُصَلِّيَهَا إِمَامًا وَخِلْوًا مُؤَخَّرَةً كَمَا صَلَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ، فَإِنْ شَقَّ عَلَيْكَ ذَلِكَ خِلْوًا أَوْ عَلَى النَّاسِ فِي الْجَمَاعَةِ، وَأَنْتَ إِمَامُهُمْ، فَصَلِّهَا وَسَطًا، لَا مُعَجَّلَةً، وَلَا مُؤَخَّرَةً "

مترجم:

642.

ابن جریج نے ہمیں خبر دی، کہا: میں نے عطاء سے پوچھا: آپ کے نزدیک کون سی گھڑی زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اس میں عشاء کی نماز، جسے لوگ عتمہ کہتے ہیں، امام کے ساتھ یا انفرادی طور پر پڑھوں؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ایک رات نبی ﷺ نے عشاء کی نماز میں دیر کر دی حتی کہ لوگ سوئے ، پھر بیدار ہوئے، پھر سوئے اور بیدار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا: نماز! عطاء نے کہا: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بتایا : تو نبی اکرمﷺ نکلے، ایسا لگتا ہے کہ میں اب بھی آپﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ کے سر مبارک سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا اور (بالوں میں سے پانی نکالنے کے لیے) آپﷺ نے اپنا ہاتھ سر کے آدھے حصے پر رکھا ہوا تھا، آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری امت کےلیے مشقت ہو گی تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔‘‘ (ابن جریج نے) کہا: میں نے عطاء سے اچھی طرح پوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انھیں کس طرح بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ کس انداز سے اپنے سر پر رکھا تھا ؟ تو عطاء نے میرے سامنے اپنی انگلیاں کسی قدر کھولیں، پھر اپنی انگلیوں کے کنارے سر کی ایک جانب رکھے، پھر ان کو دباتے ہوئے اسطرح ان کو سر پر پھیرا یہاں تک کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے کو چھونے لگا جو چہرے کے قریب ہوتا ہے، پھر کنپٹی اور داڑھی کے کنارے کو (چھوا) بس اس طرح کیا نہ (دباؤ میں) کمی کی نہ کسی چیز کو پکڑا (اور نچوڑا ۔) میں نے عطاء سے پوچھا: آپ کو کیا بتایا گیا کہ اس رات نبی اکرم ﷺ نے کتنی تخیر کی؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ عطاء نے کہا: میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہےکہ میں امام ہوں یا اکیلا، یہ نماز تاخیر سے پڑھوں، جس طرح نبی اکرم ﷺ نے اس رات پڑھی تھی۔ اگر یہ بات تمھارے لیے انفرادی طور پر با جماعت کی صورت میں لوگوں کےلیے جب تم ان کے امام ہو، دشواری کا باعث ہو تو اس کو درمیان وقت میں پڑھو، نہ جلد ی اور نہ مؤخر کرکے ۔