صحیح مسلم
2. کتاب: ایمان کا بیان
74. باب: رسو ل اللہﷺ کو رات کے وقت آسمانوں پر لے جانا اور نمازوں کی فرضیت
صحيح مسلم
2. كتاب الإيمان
74. بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ
Muslim
2. The Book of Faith
74. Chapter: The night journey on which the messenger of Allah (saws) was taken up into the heavens and the prayers were enjoined
باب: رسو ل اللہﷺ کو رات کے وقت آسمانوں پر لے جانا اور نمازوں کی فرضیت
)
Muslim:
The Book of Faith
(Chapter: The night journey on which the messenger of Allah (saws) was taken up into the heavens and the prayers were enjoined)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
162.
شیبان بن فروخؒ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہؒ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانیؒ نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیا، جس کے ساتھ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا، تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔ جبریل علیہ السلام نے (دروازہ) کھولنے کو کہا، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: اور (کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا، تو میں اچانک آدم علیہ السلام کے سامنے تھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا، اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ تو ہمارے لیےدروازہ کھول دیا گیا، اب میں دو خالہ زاد بھائیوں، عیسیٰ ابن مریم یحیی بن زکریا علیہم السلام کے سامنے تھا (اللہ ان دونوں پررحمت اور سلامتی بھیجے)۔ دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمیں اوپر تیسرے آسمان تک لے گئے، جبریل نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا، وہ ایسے تھے کہ (انسانوں کا) آدھا حسن انہیں عطا کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں اوپر چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تب میرے سامنے ادریس علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان:’’ہم نے اسے (ادریس کو) بلند مقام تک رفعت عطا کی۔‘‘ پھر ہمیں اوپر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا: آپ کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: ان کے لیے پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں بھیجا گیا تھا، چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات ہارون علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل! کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا کیا: کیا انہیں پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا۔ کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل! کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے ) داخل ہوتے ہیں، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس (آکر داخل) نہیں ہو سکتے۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے سدرۃ المنتھیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کے درخت) کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں اور اس کے بیر مٹکوں کی طرح ہیں، جب اللہ کے حکم سے جس چیز نے اسے ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا، تو وہ بدل گئی، اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اس کے حسن کا وصف بیان کر سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی جو کی، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں، کیونکہ آپ کی امت (کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس (اتنی نمازیں پڑھنے کی) طاقت نہ ہو گی۔ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور (اجر میں) ہر نماز کے لیے دس ہیں، (اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں اور جو کوئی ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن عمل نہ کرے گا، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ (اس ارادے پر) عمل کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی ایک برائی کا ارادہ کرے گا اور (وہ برائی) کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اسے کر لے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہیں خبر دی، انہوں نےکہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے (مزید) تخفیف کی درخواست کریں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نےکہا: میں اپنے رب کے پاس (بار بار) واپس گیا ہوں حتی کہ میں اس سے شرمندہ ہو گیا ہوں۔‘‘
امام مسلم نےصحیح مسلم کاآغازکتاب الایمان سےکیاہے۔عہدنبویﷺمیں جب قرآن نازل ہوااوررسول اللہﷺ نےایمان،اسلام اوراحسان کی تعلیم دی تواس وقت ان اصطلاحات کےمفہوم کےبارےمیں کسی کےدل میں کوئی تشنگی موجودنہ تھی۔لیکن آپﷺ کی رحلت کےبعدکچھ لوگوں نےایمان اوراسلام کےاسی مفہوم پراکتفانہ کیاجوصحابہ نےبراہ راست رسول اللہﷺ سےسمجھااوردوسروں کوسمجھایاتھا، انہوں نےاپنی اغراض یااپنےاپنےفہم کےمطابق ان دونوں کےنئےنئےمفہوم نکالنےشروع کردیے۔
سب سےپہلاگروہ جس نےایمان اورکفرکامفہوم اپنی مرضی سےنکالا،خوارج تھے۔ یہ گنوارلوگ تھے۔ قرآن اوراسلام کےبنیادی اصولوں کی تعبیربھی اپنی مرضی سےکرتےتھے۔ قبل ازاسلام کےڈاکوؤں کی طرح لوگوں کوقتل کرتےاوران کامال لوٹتے۔ مسلمانوں کےخلاف ان تمام جرائم کےجوازکےلیے انہوں نےیہ عقیدہ نکالاکہ گناہ کبیرہ کامرتکب کافرمطلق ہے۔ ان کےنزدیک ایمان محض عمل کانام تھا۔ صحیح مسلم کی حدیث:473(191)میں ان کےاس عقیدےکاذکرہے۔
حضرت عمرکےدورمیں جب اسلامی فتوحات کادائرہ وسیع ہواتوعراق،فارس،شام اورمصروغیرہ کےعلاقےاسلامی قلمرومیں داخل ہوئےاوریہاں کےباشندےبڑی تعدادمیں مسلمان ہوئے۔ یہاں کےلوگوں کےدینی افکارپرعلوم عقلیہ کی چھاپ نمایاں تھی۔ اسلام میں داخل ہونےکےبعداپنےاپنےافکارکےحوالےسےان کےمتعددفرقےسامنےآئے۔ ان لوگوں نےایمان اوراسلام کےحوالےسےفلسفیانہ اورمنطقی سوالات علمائےاسلام کےسامنےپیش کرنے کرنے شروع کر دیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا مقصد تو فہم اور حصول علم تھا جبکہ کچھ لوگ خوارج کی طرح فتنہ انگیزی کے لیے ان سوالوں کو زیر بحث لاتے تھے۔ ان بہت سے سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ تقدیر سے مراد کیا ہے اور کیا اس کو مانا بھی ایمان کا حصہ ہے یا نہیں ۔ علمائے اسلام کو بہر طور ان سوالوں کے جواب دینے تھے۔ ہر ایک نے اپنے ذخیرہ علم اور اپنے فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
اس دور کے مباحث کے حوالے سے فقہائے محدثین کے سامنے ایمان کے بارے میں جو سوالات پیش ہوئے وہ اس طرح تھے:
٭ ایمان کیا ہے؟ محض علم ،محض دل کی تصدیق ،محض اقرار ،عمل با ان میں سے بعض کا یا ان سب کا مجموعہ؟
٭ اسی طرح یہ بھی سوال اٹھا کہ ایمان رکھنے والے سب برابر ہیں یا کسی کا ایمان زیادہ اور کسی کا حکم ہے؟
٭ کیا ایک عام امتی کا ایمان صدیق اکبر یا عمر فاروق یا علی بن ابی طالب کے ایمان کے برابر ہوسکتا ہے؟
٭ کیا ایک امتی کا ایمان انبیاء اور ملائکہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا ایمان اور چیز ہے اور عمل چیزے دیگر؟
٭ کیا ایمان ہمیشہ ایک جتنا رہتا ہے یا کم و بیش ہوسکتا ہے؟
٭ کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟ ان میں تقدیر بھی شامل ہے یا نہیں؟
٭ یہ سوال بھی شدت سے زیر بحث رہا کہ کبائر کا مرتکب مسلمان ہے، یا دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہے، یا پھر کہیں درمیان میں ہے؟
معبد جہنی ،جہم بن صفوان اور اس دور کے فرقہ قدریہ سے تعلق رکھنے والے ابوحسن صالحی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی معرفت یا دل میں جان لینے کا نام ہے اورکفر الجهل بالرب تعالی ’’ الله تبارک وتعالی کو نہ جانے کا نام ہے۔‘‘ اس جواب سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ فرعون مومن تھا کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ نے فرمایا، اسے علم تھا کہ اللہ ہی آسمانوں وزمین کا رب ہے۔ ارشاد الہی ہے:
(قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ)
’’ تو نے جان لیا ہے کہ ان چیزوں کو نشانیاں بنا کر آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں
اتارا ۔ بني اسراءيل 17:102)
اہل کتاب کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
(يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ)
’’وہ رسول اللہﷺ کوپہچانتےہیں جس طرح اپنی اولادکوپہچانتےہیں۔ ‘‘(البقرہ 146:2)
اس نقطہ نظرکےمطابق یہ سب بھی مومن ہوئے۔ ابلیس بھی جواللہ تبارک وتعالیٰ کےبارےمیں بےعلم نہیں، مومن قرارپایا۔ نعوذبالله من ذلك.
اس بنیادی سوال کے حوالے سے فرقہ کرامیہ کا جواب یہ تھا کہ ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں منافق بھی کامل ایمان رکھنے والے مومن قرار پاتے ہیں۔ کرامیہ ان کو مومن ہی سمجھتے تھے، البتہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جس عذاب کی خبر دی ہے اسے وہ ضرور بھگتیں گے۔
ابومنصور ماتریدی اور امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی تصدیق کا نام ہے۔ ان کے بالمقابل
علمائے احناف میں سے ایک بڑی تعداد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔
زیادہ تر ائمہ کرام، مثلا: امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور باقی تمام ائمہ حدیث کے علاوہ ظاہریہ اورمتکلمین میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ايمان تصديق بالجنان،واقرارباللسان وعمل بالاركان’’ایمان دل کی تصدیق،زبان کےاقراراور(اس تصدیق واقرارکےمطابق باقی)اعضاءکےاعمال سےثابت ہوتاہے۔‘‘یادرہےکہ محدثین دل کی تصدیق کودل کاعمل اورزبان کےاقرارکوزبان کاعمل سمجھتےہیں۔ (شرح العقيده الطحاوية ،قوله:والايمان هوالاقرارباللسان....ص:332)
قدریہ،جہمیہ اورکرامیہ تواہل سنت والجماعت سےخارج تھے۔ ان کاردیقیناضروری تھااوراچھی طرح کیابھی گیا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اوران کےمؤیدین کےلیے،جوغیرنہیں،خوداساطین اہل سنت والجماعت میں سےتھے،فرامین رسول اللہﷺ کےذریعےسےاصل حقائق کی وضاحت انتہائی ضروری تھی۔
ایمان کےبارےمیں مذکورہ بالابنیادی سوالات کےجواب میں امام ابوحنیفہسےیہ باتیں منقول ہیں:
(الف)(العمل غيرالايمان والايمان غيرالعمل))
’’عمل ایمان سےجداہےاورایمان عمل سےالگ ہے۔ ‘‘
(ب)المومنون مستوؤن فى الايمان والتوحيد،متفاضلون فى الاعمال)
’’مومنین ایمان اورتوحیدمیں برابرہیں اوراعمال میں کم وبیش۔ ‘‘
(ج)الايمان لايزيدولاينقص
’’ایمان نہ گھٹتاہےنہ بڑھتاہے۔ ‘‘
(د)ايماني كايمان جبرئيل
’’میراایمان جبریل کےایمان کےمانندہے۔‘‘
(و)ايمان اهل السماوات والارض وايمان الاولين والاخرين والانبياءواحد
’’آسمانوں اورزمین والوں کاایمان اوراگلوں پچھلوں اورانبیاءکاایمان ایک (برابر)ہے۔ ‘‘(شرح الفقه الأكبربحواله إيضاح الأدلة ،ص:301-308)
امام بخاری،امام مسلم اوردیگرائمہ حدیث کےسامنےچونکہ پوراذخیرہ حدیث تھا،اس لیے انہیں معلوم تھاکہ یہ باتیں نہ صرف کتاب وسنت سےٹکراتی ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جن جن الفاظ کےساتھ قرآن نےیارسول اللہﷺ نےان امورکوبیان فرمایاہےبعینہ انہی الفاظ کواستعمال کرتےہوئےبالکل متضادباتیں کہہ دی گئی ہیں،اورایک بڑےحلقےمیں ان کوقبول بھی کیاجارہاہے۔اس کاصحیح مداوایہی تھاکہ جولوگ بھی قرآن اورحدیث رسول اللہﷺ سےمتضادباتیں کہہ رہےتھے،ان کےسامنےرسالت مآب ﷺ کےتمام متعلقہ فرامین من عن پیش کردیئےجائیں۔
کتاب الایمان میں امام مسلم سب سےپہلےحدیث جبریل لائےہیں۔ اس میں رسول اللہﷺ نےحضرت جبریل کےپیش کردہ سوالوں کوجواب دیتےہوئےایمان،اسلام اوراحسان کامفہوم واضح کیاہے۔امام مسلمنےاس کےساتھ ہی اس مفہوم کی دوسری احادیث بھی بیان کردی ہیں۔ ان احادیث 93۔103۔(8۔12)سےپتہ چلتاہےکہ ان تینوں (ایمان،اسلام،اوراحسان)میں ابتدائی مرتبہ اسلام کاہے،اس سےاونچامقام ایمان کاہےاورسب سےاونچااحسان کا۔ اوریہ کہ اللہ، اس کےرسول،ملائکہ ،قیامت ،جنت اوردوزخ کےساتھ ساتھ تقدیرالہیٰ پربھی ایمان لاناضروری ہے۔ اسی طرح ان احادیث سےیہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ گناہ کبیرہ کامرتکب ابدی جہنمی نہیں ہوتا۔
اس کےبعدامام مسلم ایسی احادیث لائےہیں جن میں یہ مذکورہ ہےکہ وہ ایمان جوانسان کوجنت میں لےجاتاہےشرک سےپاک عبادات ،زکاۃ کی ادائیگی ،صلہ رحمی اوراللہ کےحرام وحلال کےاحکامات کی پابندی پرمشتمل ہے۔ (دیکھیے،احادیث :104۔114(13۔16)
پھروہ وفدعبدالقیس سےمتعلقہ روایات اوران کےہم معنی احادیث لائےہیں ۔ رسول اللہﷺنےوفدکےلوگوں کوحکم دیاکہ وہ اکیلےاللہ پرایمان لائیں،پھرسمجھانےکےلیے خودہی سوال کیاکہ کیاتم جانتےہوکہ اکیلےاللہ پرایمان کیاہے۔ پھرخودہی وضاحت فرمائی کہ ایمان اللہ کی وحدانیت اورمحمدﷺ کی رسالت کی گواہی ،اقامت صلاۃ،زکاۃ کی ادائیگی روزےرکھنےاوراللہ کی حرام کردہ اشیاءسےدوررہنےکانام ہے۔ (دیکھیے،احادیث :115۔123(17۔19)
ان احادیث سے تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
1۔ گواہی (شہادت) دل کی تصدیق کی ہوتی ہے۔
2۔ ایمان حق دل کی تصدیق کا نام نہیں نہ دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار تک معامل ختم ہو جاتا ہے بلکہ باقی اعضاء و جوارح کے اعمال کے ذریعے سے بھی اسی حقیقت کی تصدیق ضروری ہے جس کی زبان سے گواہی دی گئی۔
3۔ ایمان اور اسلام کے الفاظ جب دونوں ملا کر ایک ساتھ بولے جائیں تو دونوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا جاتاہے۔ جب ان میں سے صرف ایک بولا جائے تو اس کے معنی میں بعض اوقات دوسرا بھی شامل ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر بولے جاتے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان محض تصدیق و اقرار کا نام نہیں بلکہ اس میں دیگر اعضاء کے اعمال بھی شامل ہونے ضروری ہیں، ورنہ یہ اسلام کے قائم مقام کے طور پر نہ بولا جا سکتا۔
اس کے بعد امام مسلم مانعین زکاة کے حوالے سے وہ احادیث لائے ہیں جن میں حضرت عمر اور حضرت ابو بکر ؓ کے الگ الگ موقف کا ذکر ہے۔ حضرت عمر کا خیال تھا کہ جس نے لا إله إلا الله کہہ دیا وہ مومن ہے اس لیے بقول رسول اللہ ﷺجان اور مال کے تحفظ کا حق دار ہے، اس سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ لا إله إلا الله کہنے سے اقرار اور اغلبا تصدیق کا تو پتہ چل جاتا ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق کا موقف اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے فرمان رسول اللہ ﷺکے اگلےحصہ طرف توجہ دلائی۔ آپ نےفرمایاتھا: ((الاّبحقه)) الایہ کہ اسی کاحق ہو‘‘یعنی لا إله إلا الله كاحق یہ ہےکہ باقی اعضاءاسکےمطابق عمل کرتےہوں۔ جب زکاۃ کاوقت آجائے تو لا الہ کا تقاضا ہے کہ زکاة ادا کی جائے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو اس کے لیے جان و مال کا تحفظ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے زور دے کر یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی زکاة کے مال کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کرے گا تو اس کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس بات سے حضرت عمر نے بھی اتفاق کیا اور تسلیم کیا کہ وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے،احادیث :124۔131(20۔23)
ان کےبعدوہ احادیث لائی گئیں جن کےالفاظ میں اجمال کےساتھ اس بات پرزوردیاگیاکہ جس نے لا إله إلا الله کہاوہ یقیناجنت میں داخل ہوگا۔ (دیکھیے،احادیث:136۔151(26۔36) ان احادیث کےذریعےسےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ اجمال کےموقع پرمحض لا إله إلا الله کہنےکی بات کی گئی لیکن اس میں لا إله إلا الله کےتقاضوں پرعمل کرناشامل ہے۔ پھریہ روایت پیش کی گئی کہ ایمان کاذائقہ محض وہی شخص چکھتاہےجواللہ کےرب ہونےاورمحمدﷺکےرسول ہونےکےساتھ ساتھ اسلام کےدین ہونےپربھی راضی ہو۔ ظاہرہےجواستطاعت کےباوجوداحکام اسلام پرعمل نہیں کرتاوہ دل سےاسلام کےدین ہونےپرراضی ہی نہیں ہے۔ یہ انتہائی لطیف نکات ہیں جوامام مسلم نےمحض احادیث مبارکہ کی ترتیب کےذریعےسےواضح فرمائےہیں۔
پھر امام مسلم نے بالترتیب ایمان کے شعبوں اور ان میں سے افضل اور ادنی شعبوں کے متعلق احادیث پیش کیں۔
ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایمان کی حلاوت سے وہی آشنا ہوتا ہے جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے محبت کرتا ہے۔ ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اہل و عیال، اولا و، مال اور خود اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ ہو تو ایمان موجود نہیں۔ ظاہر ہے محبت تصدیق اور اقرار کے علاوہ دل کا ایک اور عمل ہے۔ (دیکھیے ، أحاديث: 152- 169(44) اس کے بغیر بھی ایمان کی نفی ہو جاتی ہے۔ گویا تصدیق بالقلب کے علاوہ قلب ہی کے دوسرے اعمال ، مثل : محبت اور احترام بھی ضروری ہیں۔
امام مسلم احادیث 177- 180(50) میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات لائے ہیں ۔ تفصیلی روایت میں رسول اللہﷺ کے الفاظ اس طرح ہیں: جس نے ان (منکرات کے خلاف ہاتھوں سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔ جس نے زبان کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے۔ اس سے نیچے ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ۔‘‘ ان الفاظ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بعض لوگوں نے کہا ہے محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان نہیں، بلکہ دیگر اعضاء، زبان اور خود دل کے دیگر اعمال بھی ضروری ہیں۔ تصدیق کے علاوہ دل کے دوسرے اعمال میں منکرات سے نفرت اوریہ عزم کہ جب ہاتھ اور زبان سے ان منکرات کے خلاف جہاد کی استطاعت ملے گی تو یہ جہاد کروں گا ، شامل ہیں ۔ دل کے مزید اعمال، مثلا : الحب في الله والبغض في الله کے بارے میں بھی احادیث پیش نظررہنی چاہییں ۔ ان احادیث سے جہمیہ کے نقطہ نظر کی تردید بھی ہوتی ہے کہ دل کی تصدیق کے سوا دل کے دوسرے اعمال ایمان نہیں ۔ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے جہاد کرنے والے کا ایمان زیادہ ہے کیونکہ اس میں باقی اعضاء بھی زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ زبان سے جہاد کرنے والے کا اس سے کم، اس میں زبان کے ساتھ دل شریک ہوتا ہے۔ اور محض دل میں برا برسمجھنے والے کا ایمان سب سے کم ہے، کیونکہ باقی اعضا شامل نہیں ہوتے ۔ اس کے اپنے سرے سے ایمان ہی موجود ہیں۔
ان کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کا ایمان کن کن اعمال کی بنا پرافضل ہے اور کن لوگوں کا ایمان کم مرتبہ ہے، نیز ایمان کو یمن کی طرف نسبت دی گئی ہے اور اس کا سبب ان کے دلوں کی رقت کو قرار دیا گیا۔ اور کفر کی نسبت ان اونٹ چرانے والوں کی طرف کی گئی جو شدت پسند اور تندخو تھے۔ (دیکھیے ، أحاديث : 181-51193-53) ان احادیث سے امر بالمعروف والی احادیث کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ دل کی تصدیق کے علاوہ دل ہی سے متعلق دیگر ایسے اعمال ہیں جو ایمان کا حصہ ہیں۔ اسی طرح عدم تصدیق کے ساتھ دل ہی کےبعض دیگر عمل ہیں جو کفر کو سنگین تر بنا دیتے ہیں ۔ ایسے اعمال میں سنگ دلی ، شدت پسندی وغیرہ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے ایمان اور اس میں اضافے کو دل ہی کی کیفیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾
’’مومن وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت
کی جائیں تو یہ آیتیں ان کا ایمان زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ الأنفال 8:2)
احادیث کی ترتیب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ منکرات سے شدید نفرت، دل کی نرمی، اللہ کے ذکر پر دلوں میں خشیت ، سب ایمان میں شامل ہیں، یہ محض دل کی تصدیق کا نام نہیں ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آیات الہی کی سماعت سے ایمان، جو مذکورہ بالا تمام باتوں کا مجموعہ ہے، زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حضرات نفس ایمان میں اضافے کے قائل نہیں بلکہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ آیتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا اضافہ قرار دیتے ہیں، ان کو اس آیت کے معنی قرار دینا پڑیں گے کہ جب پہلی دفعہ کوئی آیت ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسری یا تیسری بارانہی آیات کو سن کر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور آیت مبارکہ میں جس طرح تلاوت آیات سے پہلے ذکر الہی کا بیان ہے اسے بھی وہ پہلی بار اللہ کے ذکر پرمحمول کریں گے۔قرآن کےالفاظ ﴿ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ﴾ اور﴿ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ﴾ ‘‘جب اللہ کاذکرکیاجاتاہے اورجب اس کی آیتیں ان کےسامنےتلاوت کی جائیں‘‘سےایسےمفہوم کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔
اس کے بعد احادیث : 2012- 209(57) کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں کی واقع ہوتی ہے، نیز گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے وقت ایمان انسان کے دل سے نکل جاتا ہے، بعد میں واپس آجاتا ہے۔ ان احادیث کو اگر ہر گناہ کے ساتھ دل پر ایک کالا نکتہ آ جانے اور گناہوں کی کثرت سے دل کے مکمل سیاہ ہو جانے والی احادیث کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برے اعمال کے ارتکاب سے دل کے اندر موجودنور ایمان کم ہوتا ہوتا بالآخر رخصت ہو جاتا ہے، اسی طرح اچھے عمل کرنے سے نور ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ اقوال کہ میرا ایمان جبریل کےایمان کی طرح ہےیااولین،آخرین ،اہل دنیا،اہل سماءاورانبیاءسب کاایمان برابرہے،مذکورہ احادیث سےبالکل متضادہیں۔
ان کےبعدکی احادیث میں بعض ایسےاعمال کاتذکرہ ہےجن کورسول اللہﷺ نےکفرقراردیاہے۔ ان کےبعدوہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نےایمان کوعمل قراردیاہے۔ آپﷺ سےپوچھاگیا(اي الاعمال افضل)افضل ترین عمل کون ساہے؟فرمایا:الايمان بالله عزوجل...الخ-"اللہ عزوجل پرایمان لانا...‘‘(دیکھیے،احادیث:248۔251(83۔85)یہ قول کہ الايمان غير،والعمل غيران فرامین رسول ﷺ سےبالکل متضادہے۔
پھر ان احادیث کو لایا گیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی طرح کفر میں بھی کمی اور زیادتی ہوتی ہے، مثل : تارک صلاة یا باہم قتال کر نے والوں کا کفر قطعی اور حتمی کفر سے کم تر ہے۔ ان احادیث کے بعد کبائر کے درجات کے حوالے سے احادیث مبارکہ کو لایا گیا، پھر وہ احادیث ہیں جن میں کبر اور شرک کو ایمان سے متضاد قرار دیا گیا اور شرک نہ کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط اور شرک کرنے کو جہنم میں داخلے کا حتمی سبب قرار دیا گیا۔ کبراور شرک دونوں دل اوراعضاء کے عمل ہی کی صورتیں ہیں محض دل کی عدم تصدیق کی نہیں۔
پھر وہ احادیث بیان ہوئیں جن میں ذکر ہے کہ ایمان میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے، کم ترین ایمان یہ ہے کہ کوئی تخص اچانک موت کو سامنے دیکھ کر اسلام سے عداوت اور عناد کے فورا بعد غور و فکر کے بغیر، یکدم لا إله إلا الله کا اقرار کر لے۔ یہ سب سے نچلا درجہ ہے۔ جب ایساواقعہ پیش آیا تو موقع پر موجود صحابی کا ظن غالب یہ تھا کہ ایسے شخص کی زبان پر اقرار تھا لیکن اس کے پیچھے جان بچانے کا ارادہ تھا، تصدیق کا کوئی جز موجود نہ تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺنے زور دے کر فرمایا کہ اس نے جو لا إله إلا الله کہہ دیا تھا تو یہ دلیل ہے کہ ایمان کا یہ جز موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب لا إله إلا الله تمھارے سامنے کھڑا ہو جائے گا تو کیا کرو گے؟ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو یہ سمجھے کہ اس کے دل میں جان بچانے کے قصد کے علاوہ کچھ نہیں تھا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ دیکھیے ، أحاديث: 279۔274(95۔97) ان کے ساتھ اس حدیث کو ملا کر دیکھیں جس میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آئے تو اس پر حملہ نہ کرو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرض اقرار یاعمل سامنے آجائے تو اسے ایمان سمجھا جائے جب تک اس کی دلیل موجود نہ ہو جو کفر پر دلالت کرے۔
پھر وہ احادیث ہیں جن میں ہی فرمایا گیا ہے کہ جس نے کافر ہو جانے کی جھوٹی قسم کھائی وہ اسی طرح (کافر) ہے جس طرح اس نے کہا۔ ایسے شخص کی یہ قسم کہ وہ کافر ہے، تب جھوئی ہوگی جب اس کے دل میں کسی نہ کسی درجے کا ایمان موجود ہو، اور اس قسم کی بنا پر اس کے دل میں کفر کا غصہ بھی موجود ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے دل میں اسلام اور کفر دونوں کی متضاد کیفیتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ چونکہ مذکورہ بالا کبائر کے مرتکب لوگوں کے ہاں کچھ اعمال صالحہ بھی موجود ہو سکتے ہیں جو کسی حد تک ان کے دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کی تصدیق کرتے ہیں،اس لیے ان کو اسلام سے قطعی طور پر خارج قرار نہیں دیا گیا لیکن ان کے دلوں میں ایمان کی کمی کی وجہ سے ایسی کیفیت بھی موجود ہے جس کے سبب سے وہ کفر یہ اعمال کا ارتکاب کرتے جارہے ہیں ۔ یہ انتہائی باریک نکات ہیں جو امام مسلم نے احادیث کے انتخاب اور ان کی ترتیب سے اجاگر کیے ہیں۔
اسی طرح ایساشخص جو خودکشی کر لے اس کی سزا ابدی جہنم ہے جوقطعی کفر یا شرکت کی سزا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی اعلان کر ایا کہ نفس مسلمہ یا مومن انسان کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا لیکن یہ بھی ہوا کہ ایک شخص نے ہجرت کے بعد مشکلات بھری زندگی سے تنگ آ کر ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر خودکشی کرلی، الله تعالی نے ہاتھوں کے علاوہ اس کے باقی وجود کو خوش دیا۔ ہاتھ ویسے رہے تو رسول اللہ اﷺ نے اس کے ہاتھوں کے لیے بھی بخشش کی دعا فرمادی۔
اس حدیث سے اور اس سے پہلے والی احادیث سے پتہ چلا کہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب ایمان یا تو بہت کم ہو جاتا ہے یا بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہو جانے کی صورت میں ان کی سزا جہنم بلکہ ابدی جہنم ہے لیکن اگر وہی گناہ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جس کے دل سے ایمان قطعی طور پر رخصت نہیں ہوا تھا تو ایمان کی کم از کم مقدار بڑے گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ (دیکھیے ، احادیث : 300-308 (109-112)
آگے چل کر وسوسوں کی بات ہے۔ احادیث :340-342 (132-3) میں دل میں آنے والے ایسے وساوس کی کیفیت کو، جو زبان پر نہیں لائے جاسکتے صریح ایمان یامحض ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جس کی بناپر انسان کو اللہ کا خوف لاحق ہوتاہے اور ان وساوس سے کراہت ہوتی ہے ایسے برے وسوسے دل میں موجود ہوتے ہیں جو زبان پر نہیں لائے جا سکتے۔لیکن ان کے ہوتے ہوئے اس وقت دل میں جو ایمان موجود ہے جس کی بنا پر اسے صریح، خالص اور ملاوٹ سے پاک ایمان قرار دیا گیا ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے ساتھ دل میں ایسی باتیں آسکتی ہیں جنھیں ایک مومن کے لیے زبان پر لا نا ممکن نہیں۔ یہ وساوس ہیں، لیکن جب تک یہ شک بن کر دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں ان پر مؤاخذہ نہیں۔ جاگزیں ہوجائیں تو مؤاخذہ ہے کیونکہ اب یہ دل کا عمل بن چکا ہے۔ اسی طرح نیکی کا ارادہ دل کا عمل ہے جس پر جزا ملتی ہے۔ برائی کا ارادہ بھی دل ہی کا عمل ہے لیکن اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو معاف فرما دیا ہے۔ اگر اس ارادے پر دوسرے اعضاء عمل کر کے اس کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر ایک برائی کی جاتی ہے۔
وسوسوں کی وجہ سے اہل ایمان کے دلوں کے اندر بر پا جنگ میں، اہل ایمان کی ایمان پر ثابت قدمی ، ان کے ایمان
کے خالی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ بھی دل ہی کا عمل ہے۔
احادیث 343-352 (134) میں شیطان کے اٹھائے جانے والے ایسے سوال کا تذکرہ ہے جس کا مقصد شکوک وشبہات پیدا کرنا اور ایمان و یقین کی پوری عمارت کو منہدم کرنا ہے۔ سوالوں کے سلسلے میں جب سوال سامنے آتا ہے کہ اگر ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر خود اللہ کوکس نے پیدا کیا ؟ یہ بد ترین وسوسہ ہے۔ اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اس مرحلے پر مومن کو چاہیے کہ فورأ رک جائے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور آمنت بالله کہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یہ تاکید کی گئی کہ وجود باری تعالی کے لیے عقل اور حِس کی واضح دلالت موجود ہے لیکن شیطان دل میں ڈالے گئے اس سوال کے ذریعے سے انسان کو ان اشیاء کے بارے میں محض عقل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ انسان اپنی فطرت کی طرف رجوع کرے، اس اولین میثاق کو دہرائے جو ہر روح سے لیا گیا اور اس میثاق کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کرے۔
اس کے بعد امام مسلم نے بڑے لطیف پیرائے میں اپنی ترتیب کو آگے بڑھایا۔ حدیث : 357۔362(137۔141) تک عہد اور حلف کی اہمیت کی احادیث بیان فرمائیں اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کی ۔ اس کے بعد 362-366 (142) تک بڑی ذمہ دار ہوں ، مثلا : حکمرانوں کے عہد اور حلف کے بارے میں احادیث ذکر کیں، پھر اس عہد یا میثاق اول کے موضوع پر احادیث لائے جسے قرآن نے ’’الأمانة‘‘ کہا ہے۔
حدیث: 367( 143 ) میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ سب سے پہلے ’’الأمانة‘‘ انسانی دلوں کے اندرونی حصے میں نازل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا اور اہل ایمان نے قرآن اور سنت سے علم حاصل کیا، ان الفاظ میں بہت سے نکات قابل غور ہیں ۔ الأمانة وہی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾
’’ہم نے دکھائی امانت آسانوں کو زمین کو اور پہاڑوں کو تو ان سب نے انکار کر دیا کہ اسے اٹھائیں اور اس سےڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا یہ بڑاہی ظالم اور نادان ہے۔‘‘الاحزاب33۔72)
محدثین نے امانت کے معنی ایمان کیے ہیں۔ ایمان کو ایک امانت ہی کے طور پر انسان کے سپرد کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ضروری تھی ، قرآن مجید نے یہ بات یوں بیان کی:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
’’ اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور یہ( پوچھ کر) انھیں خود ان پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہ ہیں، (یہ اس لیے کیا کہ) کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تو اس بات (اکیلے اللہ کی ربوبیت )کی خبر ہی تھی یا ایسا کہو کہ شرک تو ہمارے آباء واجداد نے کیا، ہم تو بعد میں ان کی اولاد تھے (جو انھوں نے سکھایا سیکھ گئے ۔) تو ہمیں کیوں ہلاک کرتے ہو اس کام پر جسے (دوسرے) غلط کاروں نے کیا؟ اور اس طرح ہم کھولتے ہیں آیتوں کو شاید وہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آ ئیں‘‘ الأعراف 7:172۔174)
یہی عہد وہ فطری ایمان ہے جس پر انسان کی ولادت ہوتی ہے۔ قرآن اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
’’ پس تو ایک طرف کا ہو کر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھو، اللہ کی اس فطرت کے مطابق جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا (جائز )نہیں ۔ یہی سیدھا دین ہے، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ الروم 30:30)
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کل مولود ولد على الفطرة ‘‘(صحیح البخاري، حدیث: 1385، وصحیح مسلم، حدیث:6755 (2658) مسلم کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں
((وإني خلقت عبادي حنفاءکلهم و إنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ))
’’ میں نے اپنے تمام بندے دین حنیف کے پیرو کار پیدا کیے (پھر ) ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کےدین سے پھیر دیا۔ صحیح مسلم، حدیث:7207(2865)
اِنَّ اللهَ تَعَالیٰ يَقُولُ لأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ ، أَكُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ . فَيَقُول فقدسالتك ماهوأَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ : أَنْ لا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا ، فَأَبَيْتَ إِلا الشرك
’’اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سےسب سےہلکےعذاب والےسےکہےگا:زمین میں جوکچھ بھی ہےاگروہ تیری ملکیت ہوتوکیاتواسےاس(عذاب)کےبدلےفدیےمیں دےدےگا؟وہ کہےگا:جی ہاں۔ وہ (اللہ)کہےگا:میں نےتو،جب توآدم کی پشت میں تھا،تجھ سےوہ مانگاتھاجواس سےبہت کم تھا، یہ کہ تو(کسی کو)میراشریک نہ ٹھہراناپرتونےشریک ٹھہرانےکےسواہرچیزسے انکارکیا۔‘‘صحيح البخارى ،حديث:3334وصحيح مسلم،حديث:2805،7083)
یہی وہ عہدہےجس پراللہ تعالیٰ انسان کوپیداکرتاہے۔ اگرماں باپ اوردیگرعوامل انسان کواس سےمنحرف نہ کردیں تودل سےاس کی تصدیق ہوتی ہے،پھرزبان گواہی دےکراورباقی اعضاءبھی اپنےعمل سےاس کی تصدیق کرتےہیں۔
اس کےبعدباب الإسراءبرسول الله إلى السماوات وفرض الصلوات میں امام مسلم حدیث: 412۔417(162۔164)تک وہ احادیث لائےہیں جن میں دوبارہ رسول اللہﷺ کاشق صدرہونےکاتذکرہ ہے۔
پہلاواقعہ ابتدائےطفولیت کاہےجب آپ بنوسعدمیں تھے۔ اس کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
((فاستخرج القلب،فاستخرج منه علقه،فقال:هذاحظ الشيطان منك،ثم غسله فى طست من ذهب بماءزمزم ،ثم لامه ،ثم اعاده فى مكانه))
’’جبریل نےآپ کےدل کوباہرنکالا،اس میں سےایک لوتھڑاالگ کیااورکہایہ (دل کےاندر)وہ حصہ تھاجس کےذریعےسےشیطان اثراندازہوسکتاتھا، پھراسے(دل کو)سونےکےطشت میں زمزم کےپانی سےدھویا، پھراسےجوڑااوراس کی جگہ پرواپس رکھ دیا۔ ‘‘
((ففرج صدري،ثم غسله من ماءزمزم ،ثم جاءبطست من ذهب ممتليءحكمة وايمانا،فافرغهافى صدري ،ثم اطبقه ثم اخذبيدي ،فعرج بى الى السماء))
’’جبریل نے میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینے کو بند کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور معراج پر لے گئے ۔‘‘
پہلے شق صدر کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ میثاق اولین کو برائی کی کوئی قوت چھیڑ ہی نہ سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ واضح طور پر ہمیشہ اسی میثاق پر قائم رہے۔ اور دوسرے شق صدر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے قلب مبارک میں حکمت و ایمان میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ آپ اپنے عظیم ترین سفر اور اس کے مشاہدات کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ حدیث حقیقت ایمان میں زیادتی کے بارے میں نص صریح ہے۔ آپ ﷺ کا قلب مطہر پہلے ہی ایمان سے معمور تھا۔ اس مرحلے میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ان دونوں حدیثوں سے، کہنے والے کی اس بات کی مکمل تردید ہو جاتی ہے کہ إيماني إيماني الأنبیاء ”میرا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح ہے۔ ان فقروں کے حامی متکلمین نے ان فقروں کی تائید کے لیے جو کچھ کہا ہے اس حدیث کو سامنے رکھیں تو ان میں سے کسی بات میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
البتہ محد ثین کی بھر پورمہم کے نتیجے میں، بعض اہل علم نے ان باتوں کی از سر نو تعمیر اور وضاحت کرنے کی کوششیں کیں۔ شیخ ملاعلی قاری نے امام ابوحنیفہ کے بعد ان کے ایسے شارحین کے وضاحتی بیان جمع کر کے کامیابی سے حضرت الامام کے اقوال کی ایسی تعبیر کر دی ہے جو کتاب وسنت پرمبنی ائمہ محدثین اور جمہور امت کے نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔
ایمان کے حوالے سے امام مسلم نے احادیث کی جمع وترتیب کے ذریعے سے جوحقائق واضح کیے، یہ ان کا ایک اجمالی جائزہ ہے، اس جائزے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کے سامنے ایمان کے بنیادی حقائق کا ایک مختصر نقشہ موجود رہے اور امام مسلم نے اپنے حسن ترتیب سے جو نکات واضح کرنے کی کوشش کی ان کے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
شیبان بن فروخؒ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہؒ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانیؒ نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیا، جس کے ساتھ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا، تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔ جبریل علیہ السلام نے (دروازہ) کھولنے کو کہا، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: اور (کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا، تو میں اچانک آدم علیہ السلام کے سامنے تھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا، اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ تو ہمارے لیےدروازہ کھول دیا گیا، اب میں دو خالہ زاد بھائیوں، عیسیٰ ابن مریم یحیی بن زکریا علیہم السلام کے سامنے تھا (اللہ ان دونوں پررحمت اور سلامتی بھیجے)۔ دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمیں اوپر تیسرے آسمان تک لے گئے، جبریل نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا، وہ ایسے تھے کہ (انسانوں کا) آدھا حسن انہیں عطا کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں اوپر چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تب میرے سامنے ادریس علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان:’’ہم نے اسے (ادریس کو) بلند مقام تک رفعت عطا کی۔‘‘ پھر ہمیں اوپر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا: آپ کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: ان کے لیے پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں بھیجا گیا تھا، چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات ہارون علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل! کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا کیا: کیا انہیں پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا۔ کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل! کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے ) داخل ہوتے ہیں، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس (آکر داخل) نہیں ہو سکتے۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے سدرۃ المنتھیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کے درخت) کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں اور اس کے بیر مٹکوں کی طرح ہیں، جب اللہ کے حکم سے جس چیز نے اسے ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا، تو وہ بدل گئی، اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اس کے حسن کا وصف بیان کر سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی جو کی، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں، کیونکہ آپ کی امت (کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس (اتنی نمازیں پڑھنے کی) طاقت نہ ہو گی۔ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور (اجر میں) ہر نماز کے لیے دس ہیں، (اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں اور جو کوئی ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن عمل نہ کرے گا، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ (اس ارادے پر) عمل کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی ایک برائی کا ارادہ کرے گا اور (وہ برائی) کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اسے کر لے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہیں خبر دی، انہوں نےکہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے (مزید) تخفیف کی درخواست کریں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نےکہا: میں اپنے رب کے پاس (بار بار) واپس گیا ہوں حتی کہ میں اس سے شرمندہ ہو گیا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بتایا: ’’میرے پاس برّاق لایا گیا (وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ تھا۔ گدھے سے اونچا اور خچر سے کم (چھوٹا)، اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی) میں اس پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا اور اس کو اس حلقہ (کنڈے) سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک شراب کا برتن اور دوسرا دودھ کا برتن لایا۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا (دودھ کو پسند کیا) تو جبریلؑ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا۔ پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف چڑھا، جبریلؑ نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: تو کون ہے؟ جواب دیا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ﷺ ہیں۔ سوال ہوا: اسے بلوایا گیا ہے؟ کہا: بلایا گیا ہے۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں نے اچانک آدم علیہ السلام کو پایا، انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں دوسرے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا جبریل ہوں۔ سوال ہوا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: بلایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو اچانک میں نے دو خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحیٰ بن زکریا علیہم السلام کو پایا (اللہ ان دونوں پر رحمتیں برسائے) دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے اور دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا: جبریل ہوں! سوال ہوا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں طلب کیا گیا ہے؟ کہا، انھیں بلایا گیا ہے، تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات یوسف علیہ السلام سے ہوئی۔ انھیں حسن کا وافر حصہ ملا ہے۔ اس نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ جبرائیل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو سوال ہوا آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا: اور کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: انھیں بلایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا اور میری ملاقات ادریسؑ سے ہوئی، انھوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ اللہ کا فرمان ہے: ’’ہم نے اسے بلند مقام عنایت کیا ہے۔‘‘(مریم: 57) پھر ہمیں پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ سوال ہوا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد(ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: انھیں بلوایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات ہارون ؑ سے ہوئی انھوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان پر چڑھایا گیا۔ جبریلؑ نے دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل۔ سوال ہوا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (ﷺ)۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں! انھیں بلوایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انھوں نے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر وہ ساتویں آسمان پر چڑھ گئے۔ جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا جبریل۔ سوال کیا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (ﷺ)۔ پوچھا گیا: کیا انھیں پیغام بھیجا گیا ہے؟ کہا انھیں پیغام بھیجا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کو پاتا ہوں۔ انھوں نے اپنی پشت کی ٹیک بیت المعمور سے لگائی ہوئی ہے، اور وہ ایسا گھر ہے کہ اس میں ہر روز ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، پھر ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر مجھے جبریل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کا درخت) کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں اور بیر مٹکوں کی طرح ہیں۔ تو جب اللہ کے حکم سےجس چیزنے اسے ڈھانپا، ڈھانپنا تو اس میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کو بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف جو چاہا وحی کی اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف اترا تو انھوں نےپوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے تخفیف کی درخواست کرو، کیونکہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کو جانچ چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے کہا: تو میں لوٹ کر اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میری امت کے لیے تخفیف فرما، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ ؑ کی طرف واپس آیا اور انھیں بتایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انھوں نے کہا: تیری امت اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سےتخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو میں اپنے رب تبارک و تعالیٰ اور موسیٰؑ کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد (ﷺ)! وہ ہر دن، رات میں پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے، اس طرح یہ پچاس نمازیں ہیں، اور جو انسان کسی نیکی کی نیت کر کے، کرے گا نہیں، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو برائی کا ارادہ کرے گا اور اسے کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا، اور اگر کر گزرے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اتر کر موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور انھیں خبر دی تو انھوں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے تخفیف کی درخواست کرو۔ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: میں بار بار اپنے رب کے پاس گیا ہوں حتیٰ کہ اس سے شرما گیا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) بُرَاقٌ: یہ وہ تیز رفتار (برق رفتار) سواری ہے، جس پر سوار ہو کر آپ بیت المقدس پہنچے۔ (2) مُقَدَّسٌ: اگر اس کو تقدیس سے مفعول کا صیغہ بنائیں تو معنی ہو گا، ’’پاک کیا گیا‘‘، اور اگر اس کو مصدر میمی بنا کر "مقدس" پڑھیں تو معنی ہو گا ’’طہارت و پاکیزگی کا گھر‘‘ کہ وہاں انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس کو ظرف مکان بنائیں تو معنی ہو گا ’’وہ گھر جو خود پاک ہے‘‘ کیونکہ وہ بتوں کی آلودگی سے پاک ہے۔ (3) فِطْرَةٌ: اس سے مراد، اسلام اور استقامت ہے، کیونکہ دودھ انسان کی طبعی و فطرتی غذا ہے، جو انسان کی نشوونما کا باعث ہے، اسی طرح اللہ کی ربوبیت و الوہیت کا اقرار، انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیا گیا ہے۔ (4) بَيْتُ الْمَعْمُورِ: آباد گھر، کعبہ کے محاذات میں ساتویں آسمان پر عبادت گاہ ہے، جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت کے لیے آتے ہیں اور ایک دفعہ آ جانے والوں کو دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ (5) سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى: فرشتوں کے جانے کی سرحد پر واقع بیری ہے، فرشتے اس سے اوپر کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے، کیونکہ وہ اوپر نہیں جا سکتے، یا اس لیے کہ اوپر سے جو کچھ اترتا ہے وہ یہاں آ کر رک جاتا ہے، اور نیچے سے جو کچھ چڑھتا ہے وہ بھی یہیں رک جاتا ہے۔ (6) فِيْلَةٌ:فِيْلٌ کی جمع ہے، ہاتھی۔ قِلَالٌ:قُلَّةٌ کی جمع ہے، بڑا مٹکا، جس میں دو یا اس سے زائد مشکیں ڈالی جا سکتی ہیں۔
فوائد ومسائل:
(1) واقعہ اسرا اور معراج مکہ معظمہ میں پیش آیا اور بیداری میں، آپ ﷺ کے جسد اطہر کو براق کے ذریعہ بیت المقدس لے جایا گیا، یہاں تک کے سفر کو اسرا کا نام دیا جاتا ہے، اور پھر بیت المقدس سے آسمانوں پر معراج (سیڑھی، لفٹ) کے ذریعہ سے لے جایا گیا، اس کو معراج کا نام دیا جاتا ہے، اگر چہ بعض ائمہ نے دونوں کو اسرا یا معراج سے تعبیر کیا ہے، اور سائنس کی ترقی کے موجودہ دور میں اس پر کسی قسم کے اعتراض اور شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ انسان جو انتہائی محدود طاقت اور علم کا مالک ہے وہ انتہائی حیرت انگیز فضائی سفر کر رہا ہے، تو خالق کائنات جس کی قوت اور علم کی کوئی حد نہیں، اس کے کسی فعل پر کیسے تعجب یا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟ (2) آسمانوں کا وجود ہے وہ محض حد نظر کا نام نہیں ہے، اور کوئی انسان بغیر اجازت کے آسمان پر نہیں جا سکتا، ان پر فرشتوں کی صورت میں چوکس پہرے دار موجود ہیں، کوئی ان کی نظر سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ (3) اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر موجود ہے، اور اگر وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے تو پھر نبی اکرم ﷺ کو اوپر لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کہ وہاں جا کر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں حروف وآواز ہے، جس کا آپ نے سماع کیا، اور بار بار اپنی درخواست کا جواب سنا۔ (4) نماز اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کو معراج کا تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ پر احسان ہے، اور آپ ﷺ کی شفقت ورحمت کا مظہر ہے کہ نمازیں پچاس سے پانچ کر دی گئیں، لیکن اجر وثواب پچاس کا برقرار رہا، اس میں کمی واقع نہیں ہوئی۔(5) آخری بار جب موسیٰ علیہ السلام نے پھر جانے کا کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اب میں شرم محسوس کرتا ہوں‘‘ کیونکہ ایک تو آپ کو فرمایا جا چکا تھا کہ اب تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور پھر چونکہ ہر دفعہ پانچ کی تخفیف ہوئی تھی اب جانے کا معنی یہ تھا کہ ایک نماز نہیں پڑھ سکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is narrated on the authority of Anas bin Malik (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: I was brought al-Buraq Who is an animal white and long, larger than a donkey but smaller than a mule, who would place his hoof a distance equal to the range of version. I mounted it and came to the Temple (Bait Maqdis in Jerusalem), then tethered it to the ring used by the prophets. I entered the mosque and prayed two rak'ahs in it, and then came out and Gabriel (ؑ) brought me a vessel of wine and a vessel of milk. I chose the milk, and Gabriel (ؑ) said: You have chosen the natural thing. Then he took me to heaven. Gabriel (ؑ) then asked the (gate of heaven) to be opened and he was asked who he was. He replied: Gabriel (ؑ). He was again asked: Who is with you? He ( Gabriel (ؑ)) said: Muhammad. It was said: Has he been sent for? Gabriel (ؑ) replied: He has indeed been sent for. And (the door of the heaven) was opened for us and lo! we saw Adam. He welcomed me and prayed for my good. Then we ascended to the second heaven. Gabriel (ؑ) (peace be upon him) (asked the door of heaven to be opened), and he was asked who he was. He answered: Gabriel (ؑ); and was again asked: Who is with you? He replied: Muhammad. It was said: Has he been sent for? He replied: He has indeed been sent for. The gate was opened. When I entered 'Isa bin Maryam and Yahya bin Zakariya (peace be upon both of them), cousins from the maternal side. welcomed me and prayed for my good Then I was taken to the third heaven and Gabriel (ؑ) asked for the opening (of the door). He was asked: Who are you? He replied: Gabriel (ؑ). He was (again) asked: Who is with you? He replied Muhammad (ﷺ) . It was said: Has he been sent for? He replied He has indeed been sent for. (The gate) was opened for us and I saw Yusuf (peace of Allah be upon him) who had been given half of (world) beauty. He welcomed me prayed for my well-being. Then he ascended with us to the fourth heaven. Gabriel (ؑ) (peace be upon him) asked for the (gate) to be opened, and it was said: Who is he? He replied: Gabriel (ؑ). It was (again) said: Who is with you? He said: Muhammad. It was said: Has he been sent for? He replied: He has indeed been sent for. The (gate) was opened for us, and lo! Idris was there. He welcomed me and prayed for my well-being (About him) Allah, the Exalted and the Glorious, has said:" We elevated him (Idris) to the exalted position" (Qur'an xix. 57). Then he ascended with us to the fifth heaven and Gabriel (ؑ) asked for the (gate) to be opened. It was said: Who is he? He replied Gabriel (ؑ). It was (again) said: Who is with thee? He replied: Muhammad. It was said Has he been sent for? He replied: He has indeed been sent for. (The gate) was opened for us and then I was with Harun (Aaron-peace of Allah be upon him). He welcomed me prayed for my well-being. Then I was taken to the sixth heaven. Gabriel (ؑ) (peace be upon him) asked for the door to be opened. It was said: Who is he? He replied: Gabriel (ؑ). It was said: Who is with thee? He replied: Muhammad. It was said: Has he been sent for? He replied: He has indeed been sent for. (The gate) was opened for us and there I was with Musa ( Moses (ؑ) peace be upon him) He welcomed me and prayed for my well-being. Then I was taken up to the seventh heaven. Gabriel (ؑ) asked the (gate) to be opened. It was said: Who is he? He said: Gabriel (ؑ) It was said. Who is with thee? He replied: Muhammad (may peace be upon him.) It was said: Has he been sent for? He replied: He has indeed been sent for. (The gate) was opened for us and there I found Ibrahim (Abraham peace be upon him) reclining against the Bait-ul-Ma'mur and there enter into it seventy thousand angels every day, never to visit (this place) again. Then I was taken to Sidrat-ul-Muntaha whose leaves were like elephant ears and its fruit like big earthenware vessels. And when it was covered by the Command of Allah, it underwent such a change that none amongst the creation has the power to praise its beauty. Then Allah revealed to me a revelation and He made obligatory for me fifty prayers every day and night. Then I went down to Moses (ؑ) (peace be upon him) and he said: What has your Lord enjoined upon your Ummah? I said: Fifty prayers. He said: Return to thy Lord and beg for reduction (in the number of prayers), for your community shallnot be able to bear this burden. as I have put to test the children of Isra'il and tried them (and found them too weak to bear such a heavy burden). He (the Holy Prophet) said: I went back to my Lord and said: My Lord, make things lighter for my Ummah. (The Lord) reduced five prayers for me. I went down to Moses (ؑ) and said. (The Lord) reduced five (prayers) for me, He said: Verily thy Ummah shall not be able to bear this burden; return to thy Lord and ask Him to make things lighter. I then kept going back and forth between my Lord Blessed and Exalted and Moses (ؑ), till He said: There are five prayers every day and night. O Muhammad (ﷺ) , each being credited as ten, so that makes fifty prayers. He who intends to do a good deed and does not do it will have a good deed recorded for him; and if he does it, it will be recorded for him as ten; whereas he who intends to do an evil deed and does not do, it will not be recorded for him; and if he does it, only one evil deed will be recorded. I then came down and when I came to Moses (ؑ) and informed him, he said: Go back to thy Lord and ask Him to make things lighter. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) remarked: I returned to my Lord until I felt ashamed before Him.