باب: حضرت جابرؓ کی طویل حدیث اور حضرت ابو یسر ؓ قصہ
)
Muslim:
The Book of Zuhd and Softening of Hearts
(Chapter: The Lengthy Hadith Of Jabir And The Story Of Abu Al-Yasar)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3014.
اور لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا۔‘‘ پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے، سمندر نے جوش مارا (ایک لہر سی آئی) اور اس نے ایک سمندری جانور (باہر) پھینک دیا، ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس (کے گوشت) کو پکایا، بھونا، کھایا اور یہ سیر ہوگئے (حضرت جابر نے کہا: میں اور فلاں اور فلاں،ا نھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے میں گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی (ایک جانب ایک بڑا کانٹا) لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کر دیا، پھر قافلے میں سب سے بڑے (قد کے) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو منگوایا، شخص سر جھکائے بغیر اس پسلی کے نیچے داخل ہوگیا۔
یہ دنیا بنو آدم کا اصل وطن نہیں ۔یہ جگہ تکلیفوں ،صدموں،خطروں اور آفتوں سے بھری ہوئی ہے ۔ٖآدم اور ان کی اولاد کا وطن وہی جگہ ہے جسے حاصل کرنے خواہش اس کے خون میں موجزن ہے آدم کے جس بیٹے بیٹی نے اپنی فطرت کی حفاظت کی اپنے خالق و مالک پالنے والے اور نعمتوں سے نوازے والے پروردگار سے اپنا تعلق نہیں توڑا اسے معلوم ہے کہ اس کا اصل وطن کونسا ہے اور اس نے وہاں پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے ،کہ اس دارالمحن میں اسے ہر صورت ایک متعین مدت کے لیے گزارنا ہے اور جب یہ میعاد پوری ہو جائے گی تو وہ اس قید خانے سے پرواز کر یگا اور اپنے خوبصورت ترین ،ابدی نعمتوں سے بھرے ہوئے اور ہر طرح کی تکلیفوں سے محفوظ وطن میں پہنچ جائے گا ۔وہاں سے ہمیشہ اپنے محبت کرنے والے انتہائی محبوب اور رحیم و کریم رب کے انتہائی قرب میں زندگی گزارے گا،جہاں ہر آن نئے سے نیا انعام اس کا منتظر ہو گا۔
دوسری طرف آدم کا وہ بیٹا /بیٹی جس نے اپنی فطرت کو اپنے بدترین دشمن کے پاس گروی رکھ دیا اپنے رحیم وکریم پروردگار سے اپنا ناتا توڑ لیا اور اپنے بدترین دشمن کے اس جھوٹ کا اعتبار کر لیا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے لذت کا سامان صرف وہی ہے ، وہ اس دنیا کے متاع فریب کا شکار ہو جائے گا،اپنی منزل کو بھلا دے گا،حقیقی وطن کے طرف جانے والے راستے کو چھوڑ دے گا اور اس گٹھیا زندگی کی جھوٹی اور عارضی دلفریبیوں کے پیچھے چلتا ہوا تباہی کے گڑھے میں گر جائے گا۔اپنے دشمن کے فریب میں آ کر اس نے جس جھوٹی جنت میں دل لگایا تھا وہ بھی اس سے چھن جائے گی۔یہ دنیا حقیقتاً ایک قید خانہ ہے جس کی اصلیت سے مومن آگاہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے جس کے فریب ہونے اسے تب پتہ چلے گا جب وہ حتمی بتاہی کا شکار ہو چکا ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس دنیا کی اصلیت کو واشگاف کرنے والی ایک مثال سے اولاد آدم کو اس دنیا کے فریب سے بچانے کی کوشش فرمائی ۔یہ اس بدصورت کان کٹے بکری کے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے جسے اپنی مختصر زندگی کے بعد مر کر متعفن ہو جانا اور گندگی میں بدل جانا ہے اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی طرح کی ہیں تھوڑی دیر کے لیے دلکش اور جلد ہی بدل جانے والی ہیں سب سے زیادہ وہ دانا اور سب سے کامیاب انسان وہی ہو سکتا ہے جو اسی وقت میں اس نعمت سے فائدہ اٹھائے جبکہ وہ نہیں بدلی ،کھائے ،پہن لے اور جو بچے اسے نسخہ کیمیا کے ذریعے سے انتہائی بیش قیمت اور لافانی بنا کر ایسے ذریعے سے اپنے حقیقی وطن اور اپنے دائمی گھر کی زیب و زینت بنانے کے لیے آگے روانہ کر دے کہ وہاں پہنچے تک وہ لمحہ بیش قیمتی اور عظیم تر ہوتا جائے نسخہ کیمیا یہ ہے کہ ہر نعمت کو اپنے رب کی رضا کے ساتھ وابستہ کر دے اور اس کے راستے میں دے کر اسے آگے بھجوا دے۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ نعمتیں اس قبر تک پہنچا کر واپس ان لوگوں کے پاس آجائیں گی جو انہیں سینت سینت کر رکھیں گے اور وہ گندگی میں بدلتی فنا ہوتی جائیں گی یا پھر ان کی قسمت اچھی ہوئی تو جو کام یہ جانے والا نہیں کر سکا وہ کر گزریں گے اور انھیں آگے روانہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے دنیا کی اکثر نعمتیں اسی دنیا میں گندگی میں بدلتی رہتی ہیں اور جو نہیں بدلتیں وہ تپ کر انگارہ بنتی رہتی ہیں ، اسی کو جلا ڈالتی ہیں ،وہ ان سے چمٹا رہتا ہے ۔رسول اللہﷺ نے ہر موقع پر اپنی امت کو کامیابی کے ان سنہرے اصولوں سے آگاہ کیا اور بہترین تربیت فرمائی۔ جب فاقوں میں زندگی گزار کر ایثار کرنے والے انصار بحرین سے مال آجانے کی خبر سن کر فاقے اور احتیاج کی شدت سے بچنے کی امید لے کر آپ کی خدمت میں آبیٹھے تو آپ نے انھیں اس مال میں سے اپنے حصے کی نوید بھی عطا کی اور اس سے کروڑ زیادہ قیمتی اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ فاقے میں جو امتحان ہوتا ہے وہ اس امتحان سے بہت آسان ہے جو مال کی فراوانی کے ذریعہ سے ہوتا ہے وہی اہل ایمان جو فاقوں کے عالم میں ایثار اور مواسات کے راستے پر چل رہے ہیں مال آجانے کے بعد ان میں سے بہت لوگ دنیا داری میں مقابلے کا شکار ہو جائیں گے ،ایثار کے بجائے ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں گے اور مواسات کے بجائے باہمی حسد اور بغض کا شکار ہو جائیں گے۔آپ نے اس امتحان میں سرخرو ہونے کا نسخہ یہ بتایا کہ دنیا اور مال کے معاملے میں اس کی طرف دیکھنے کی بجائے جو تم سے اوپر ہے،اس کی طرف دیکھنا جو تم سے کم تر ہے اور اپنی حالت کو یاد رکھنا جو دنیا کی نعمتیں ملنے سے پہلے تھی اور یاد ر کھنا کہ تم خود اپنی خوبصورت شکل و صورت ، صحت و عافیت ،سننے ، بولنے ،دیکھنے کی صلاحیت اور مال و دولت خود بنا کر ساتھ نہیں لائے ، نہ تمہارے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے یہ سب کچھ تمھیں دینے والے نے دیا ہے یہ اسی کے کام آئے گا جس نے آنکھوں سے دیکھنے کے ساتھ دل سے دیکھنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ دینے والے کا احسان یاد رکھا ، اس کے نام پر دینے کو بوجھ نہ سمجھا۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی سابقہ امت کے تین آدمیوں کا قصہ سنا کر اپنی امت کو منزل کا پتہ بتایا اور وہاں تک پہنچانے والے راستے پر لا کھڑا کیا ۔وہ اپنے نصیب کو روئے جو آپ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر دشمن کے پیچھے چل پڑ۔ جنھوں نے آپ ﷺکے راستے کو نہ چھوڑا وہ حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے ہیں انھوں نے یاد رکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :اللہ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو ،غنی اور گم نام و گوشہ نشین ہو ۔وہ عتبہ بن غزوان جیسے تھے جو فقرو فاقہ کے عالم میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں گزاری ہوئی زندگی کی لذتوں کو بھلا نہ پائے تھے اور دوسروں کی بھی یہی راستہ دکھاتے رہتے تھے ۔حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس نے بھی امت کے سامنے اس سبق کو دہرایا جو رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے انجام کے حوالے سے لکھایا تھا جو دنیا کے فریب میں آکر اپنے رب کو بھلا دیتے ہیں اور اس سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔حضرت انس ،ابوہریرہ،نعمان بن بشیر اور سب سے بڑھ کر ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے کھول کھول کر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ امت کو دیے ہوئے سبق پر خود کس طرح عمل فرماتے تھے رزق تک کے معاملے میں آپ کی دعا ہی یہ تھی ’’ کہ الے اللہ آل محمد کا رزق زندگی بر قرار رکھنے جتنا کر دے ‘‘اور یہ زندگی اس طرح برقرار رہتی ہے کہ مہینوں چولہا نہ جلتا تھا ساراگھر کبھی مسلسل وہ راتیں جو کی روٹی پیٹ بھر کے نہ کھاتا تھا ۔ بہت خوش حالی میں میں بھی مسلسل تین راتوں سے زیادہ گندم کی روٹی نہ کھائی تھی گزر ان دو چیزوں پر تھی کھجور اور پانی پر، بلکہ جب آپ کے گھر والوں کو یہ دونوں چیزیں پیٹ بھر کر ملنے لگیں تو آپ دنیا چھوڑ کر آگے روانہ ہوئے۔
یہاں کی زندگی میں تو ردی کھجور بھی اتنی میسر نہ تھی کہ پیٹ بھر جاتا،آپ کے تربیت یافتہ صحابہ مکھن اور ایک سے زیادہ قسم کی کھجوروں کو تعیش خیال کرتے تھے اور جس گھر میں بیوی کے ساتھ کوئی خدمت گزار بھی میسر ہوتا تو اسے بادشاہ قرار دیتے تھے فقیری میں فائدہ یہ تھا کہ فقرا،مسلمان اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں جا بستے ہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا کی لذتو ں میں غرق ہو کر عذاب کا شکار ہونے والوں کے کنویں کے پانی سے گندھا ہوا آٹا بھی اپنے ساتھیوں کو استعمال نہ کرنے دیا اور سواری کے اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور یہ نکتہ سکھایا کہ سوچو جو شخص اپنی زندگی ہی ثمود والوں کی طرح دینا کی لذتوں میں غرق ہو کر گزار دے گا وہ کس طرح اللہ کے غضب کا شکار ہوگا۔
اس کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث بیان کیں جن میں سکھایا گیاکہ اپنے مال کے ذریعے سے اللہ کی رضا اور اس کا قرب کیسے حاصل ہو سکتا ہے ۔بیوہ عورتوں،مسکینوں اور یتیموں کی خبر گیری کا کیا انعام ملتا ہے ،مسجدیں بنانے اور مسافروں کا خیال رکھنے کا اجر کیا ہے ساتھ ہی وہ احادیث بیان کیں جن میں بتایا کیا ہے کہ یہ اچھے کام ضائع کس وجہ سے ہوتے ہیں بلکہ برے اور قابل سزا ہو جاتے ہیں ۔ریاکاری کیا ہے زبان کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے پر کیا تباہی آتی ہے دوسروں کو اچھی تلقین کرنے اور خود عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ،تکبر کا شکار ہو کر اپنے گناہوں کا اشتہار لگانے والا کس انجام کو پہنچا ہے ، اللہ کی رضا کے لیے چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر کتنے بڑے انعامات مل سکتے ہیں اس کے بر عکس جس کی فطرت مسخ ہو جائے ،بعید نہیں کہ اس کی خلقت بھی مسخ ہو جائے ،اسے انسان سے تبدیل کر کے کوئی حقیر جانور بنا دیا جائے ۔ انسان خود بھی تکبر سے بچے،دوسروں کو بھی تکبر کا نشانہ نہ بننے دے۔ ہر بڑے چھوٹے کا حق ادا کرے فرامین رسول ﷺ پر مشتمل عمل و حکمت کا یہ خزانہ انسانیت کی ہدایت اور فلاح کا ضامن ہے اس کا صحیح تحفظ بھی عظیم اجر کا سبب ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے جنھیں پغمبروں کی تعلیمات اور سچی ہدایت کی حقیقی قدر معلوم تھی۔وہ زندہ آگ میں جل گئے اور ہدایت سے دستبردار نہ ہوئے۔
پھر امام مسلم نے حضرت ابویسر اور حضرت جابر کی زبانی اس زندگی کے نمونے پیش کیے جو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں بسر ہوئی ،پھر رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کی جھلکیاں، آپ کی سکھائی ہوئی حکمت کے نمونے ،آپ کی دنیا سے بے رغبتی اللہ کی راہ میں مستعدی اور آپ کے بے کنار فیض اور آپ کی عظیم ترین برکتوں اور اس زندگی اور اس کے بعد امت کے ہر فرد سے آپ کی یہ جھلکیاں اور زندگی کے ہر مرحلے حتی کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کے ہر موڑ پر آپ کے طر عمل اور رویے کے جمال انسان کے دل کو موم بنانے کا سامان ہے آپ کی سیرت کا ہر نقش آپ کے ساتھ اہل ایمان کی محبت کو فروزاں تر کرنے کا یقینی ذریعہ ہے ۔
اور لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا۔‘‘ پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے، سمندر نے جوش مارا (ایک لہر سی آئی) اور اس نے ایک سمندری جانور (باہر) پھینک دیا، ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس (کے گوشت) کو پکایا، بھونا، کھایا اور یہ سیر ہوگئے (حضرت جابر نے کہا: میں اور فلاں اور فلاں،ا نھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے میں گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی (ایک جانب ایک بڑا کانٹا) لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کر دیا، پھر قافلے میں سب سے بڑے (قد کے) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو منگوایا، شخص سر جھکائے بغیر اس پسلی کے نیچے داخل ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’امید ہے اللہ تمہیں کھلائے گا‘‘ چنانچہ ہم سمندر کے ساحل پر پہنچے تو سمندر نے زور سے جوش مارا، یعنی اس کی لہر زور سے اٹھی اور اس نے ایک جاندار پھینک دیا، ہم نے اس کے ایک ٹکڑے کے لئے آگ جلائی، اس کو پکایا اور بھونا اور اس کو کھایا، حتی کہ ہم سیر ہو گئے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں اور فلاں فلاں پانچ آدمی گئے اور اس کی آنکھ کے خول میں داخل ہو گئے۔ ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا تھا حتی کہ ہم باہر آ گئے تو ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی کو لے کر اس کی کمان بنائی پھر ہم نے قافلہ میں سے سب سے بڑے آدمی اور سب سے بڑے اونٹ کو طلب کیا اور قافلہ کے سب سے بڑے پلان کو لیا، سو وہ اس کے نیچے سر جھکائے بغیر چلا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) سِيفَ الْبَحْرِ:سمندر کا ساحل، (2) زَخَرَ الْبَحْرُ زَخْرَةً: سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں۔ (3) حجاج: آنکھ کاخول۔ (4)كِفْلٍ: وہ کپڑا جو اونٹ کی کوہان کے اردگرد لپیٹا جاتا ہے، یہاں مراد پالان ہے۔
فوائد ومسائل
ان احادیث میں آپ کے مختلف معجزات کو بیان کیا گیا ہے اورمعجزات پر قیاس نہیں ہوسکتا، اگر آپ کو دوقبروں کے عذاب کا علم دیا گیا ہے، تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپ کو دنیا میں برزخ کے حالات کا پتہ تھا اور برزخ (قبر) میں دنیا کے حالات کا علم ہے اور اگر تر شاخ رکھنے سے عذاب میں تخفیف ہوئی ہے، تو قبر پر پڑھنے سے بالاولیٰ ہوگی، کیونکہ عذاب کی تخفیف میں شاخ تر کا کوئی دخل نہیں ہے اور اگر تر شاخ تسبیح پڑھتی ہے، تو کیا خشک شاخ تسبیح نہیں پڑھتی، اللہ کا فرمان تو یہ ہے، ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾ ہر چیز حمدکےساتھ تسبیح کہہ رہی ہے، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت، جب تک یہ تر رہیں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then the people made a complaint to Allah's Messenger (ﷺ) about hunger and he said: May Allah provide you food! We came to the bank of the ocean and the ocean was tossing and it threw out a big animal and we lit fire and cooked it and took it until we had eaten to our heart's content. Jabir said: I and such and such five persons entered its socket and nobody could see us until we had come out, and we took hold of one of its ribs and twisted it into a sort of arch, then we called the tallest of the persons of the army and the hugest of the camels of the army and it had the big saddle over it, and it could easily pass through it without the rider having need to bend down.