تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے اس بے عملی یا بدعملی کے طوفان کو روکنا چاہتے ہیں جو مرجیہ کے موقف کی وجہ سے لوگوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مرجیہ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے۔ اس کی موجودگی میں اعمال صالحہ کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ مومن صرف تصدیق ہی سے ان بشارتوں کا حقدار بن جاتا ہے جو اس کے لیے قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔ نیز آپ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ نیک عادات اور پاکیزہ خصائل ایسے ہیں جن کے بغیر انسان حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔ حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان میں اسلام کی کوئی شان تو نمایاں ہونی چاہیے، کم از کم مسلمان ہونے کی حیثیت سے سلامت روی اور سلامت جوئی توضرور ہو۔ اگرکسی شخص میں ادعائے اسلام کے باوجود یہ شان موجود نہیں تو اسے یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا۔
2۔ اس حدیث میں زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا حکم ہے کیونکہ ایذا کا تعلق اکثر انھی دو سے ہوتا ہے بصورت دیگر یہ مطلب نہیں کہ پاؤں سے ایذا رسانی جائز ہے، بلکہ مطلق طورپر ایذا رسانی جرم ہے۔ پھر ان دونوں میں زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ نقصان کا تعلق ہاتھ کے مقابلے میں زبان سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف اسے حرکت دینا ہوتی ہے اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی کلمے سے پوری قوم یا پوری انسانیت کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ ہاتھ سے صرف اسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جو سامنے موجود ہو، نیز زبان سے سب وشتم پہلے ہوتا ہے اور ہاتھ استعمال کرنے کی نوبت بعد میں آتی ہے۔
3۔ زبان کی برائی سے سب وشتم، غیبت، بدگوئی وغیرہ اور ہاتھ کی بُرائی سے چوری، ڈاکا زنی، لوٹ مار، مارپیٹ وغیرہ مراد ہیں۔
4۔ "المسلمون" کی قید سے ثابت نہیں ہوتا کہ غیرمسلم کو زبان اور ہاتھ سے تکلیف دینا جائز ہے بلکہ مسلمان تو تمام لوگوں کا خیر اندیش ہوتا ہے۔ وہ نسب یا رنگ ونسل یا مذہب کو تلاش نہیں کرتا، اگر کسی کے ساتھ مذہبی یانسلی رشتہ نہیں ہے تو انسانی تعلق ہی مراعات کے لیے کافی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان وہ ہے جس سے تمام لوگ محفوظ ہیں۔ (مسند أحمد: 379/2) الغرض اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کسی غیر مسلم پر بھی دست درازی نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ بھی انسانی رشتے کی بنا پر رواداری سے پیش آئیں۔
5۔ ہجرت صرف ترک وطن کا نام نہیں بلکہ ان چیزوں کو چھوڑدینے کانام ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ترک وطن اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کرسکتے کیونکہ جس وطن میں احکام الٰہی کی تعمیل نہ ہو، اسے خیر باد کہنا ہی بہتر ہے۔ گویا ہجرت کی دوقسمیں ہیں: ظاہری اور باطنی۔ ظاہری ہجرت ترک وطن ہے اور باطنی ہجرت منہیات سے اجتناب ہے۔ اس حدیث کی دواغراض ہیں: (الف) مہاجرین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا صرف ہجرت کر لینا کافی نہیں بلکہ ہجرت کے بعد گناہوں سے احتراز کرنا ہی اللہ کی رضا کا باعث ہوگا۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہجرت کے بعد ہمیں کسی عمل خیر کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري: 74/1) (ب)۔ ان لوگوں کو تسلی دینا مقصود ہے جو کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے کہ اصل ہجرت یہ نہیں بلکہ ہجرت یہ ہے کہ آدمی گناہ اور ہر قسم کی منہیات سے بازرہے، یہ فضیلت تو ہروقت حاصل ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نےفرمایا: ’’تیرابھلا ہو ہجرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیاتیرے پاس اونٹ ہیں اور ان کی زکاۃ دیتا ہے؟‘‘ (اس نے) عرض کیا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’سمندر پاررہتے ہوئے عمل خیر کرتے رہو۔ تجھے وہی اجر ملے گا۔ اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1452)
6۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے اختتام پر دو تعلیقات بھی ذکر کی ہیں، پہلی تعلیق کا مقصد یہ ہے کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جن کا نام عامرہے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمرو سے براہ راست سنا ہے کیونکہ اس تعلیق میں تصریح سماع ہے جبکہ مذکورہ روایت میں ان کے سماع کی وضاحت نہ تھی۔ ابومعایہ کے اس طریق سے اس شبے کو دور فرمایا ہے۔ دوسری تعلیق میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں عبداللہ نامی راوی سے مراد، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ طبقہ صحابہ میں جب عبداللہ مطلق ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے ہیں جیسا کہ طبقہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں مطلق عبداللہ سے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے مراد ہوتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تنبیہ فرمانے کے لیے دوسری تعلیق کو ذکرکیا ہے۔
7۔ اگر کسی کو اقامت حد کے پیش نظر سزا دی جائے اگرچہ بظاہر یہ ایذا رسانی ہے تو جائز ہوگا کیونکہ اس سے مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ فساد و فواحش اور منکرات کا انسداد مقصود ہے۔ (فتح الباري: 75/1)