تشریح:
(1) اس حدیث میں زلزلوں کا ذکر ہے اور اس قسم کی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے اور خبردار کرنے کے لیے ہوتی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾) ’’ہم اس قسم کی نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں۔‘‘ (بني إسرائیل59:17) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب تم اللہ کی نشانیاں دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکر کرو، اس سے دعا اور استغفار میں مصروف ہو جاؤ۔‘‘ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:1058) اس لیے جب بھی زلزلہ یا کوئی اور آفت آئے تو نماز پڑھنا اور ذکر کرنا مشروع ہے، لیکن اس کے لیے کوئی خاص شکل و صورت حدیث میں نہیں آئی۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ زلزلے وغیرہ کے وقت اللہ کے ذکر اور دعا و استغفار میں مصروف ہونا چاہیے۔
(2) اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الفتن میں آئے گی۔ اس مقام پر ہم صرف اس حقیقت کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارض فتن کی نشاندہی کرتے وقت مشرق کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نجد عراق ہے جو شروع ہی سے فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ اسی علاقے سے مسلمانوں کے افتراق اور انتشار کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس سے مراد نجد حجاز نہیں، جیسا کہ بدعتی حضرات کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے، کیونکہ اس علاقے سے تو ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کر دی۔ وہاں سے شیخ محمد بن عبدالوہاب نے خالص اسلام کی دعوت کو شروع کیا جس کے نتیجے میں وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی جو سعودی حکومت کے نام سے مشہور ہے۔ اس حکومت نے اسلام کی سربلندی اور حرمین شریفین کے لیے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو عالم اسلام میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادم زیست قائم رکھے۔ آمین