باب: اس بیان میں کہ (بھوکے ناداروں کو) کھانا کھلانا بھی اسلام میں داخل ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To feed (others) is a part of Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
12.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا، کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ اور سب کو سلام کرو، (عام اس سے کہ) تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ اس سے پہلے مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس حدیث میں ایصال نفع کا ذکر ہے کھانا کھلانا ہاتھ سے اور سلام کرنا زبان سے نفع پہنچانا ہے ایک مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔ 2۔ اطعام طعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا اور کسی کی ضیافت کرنا شامل ہیں۔ اس کا تعلق مالی مکارم سے ہے۔ اسی طرح مسلمان کو سلام کرنا، خواہ آشنا ہو یا بیگانہ، بدنی مکارم سے متعلق ہے، گویا مالی اور بدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام اورایمان نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے نیز جس انسان میں مکارم اخلاق، خواہ مالی ہوں یا بدنی، زیادہ ہوں گے اس کا ایمان اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔ اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور نہ ان کے چھوڑنے سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔ 3۔ اطعام طعام میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں ہے بلکہ جانوروں تک کے کھلانے میں اجر وثواب ہوتا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث میں اس کی صراحت ہے، البتہ مسلمان کو کھلانے میں اجرزیادہ ہوگا، وہاں سلام کرنے میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی، کیونکہ کفار اور منکرین حق کو سلام کہنا درست نہیں ہے۔ اہل کتاب کو پہلے سلام نہیں کہنا چاہیے۔اگر وہ سلام کہیں تو صرف وعلیکم سے جواب دیاجائے۔ 4۔ ایک ہی سوال کے مختلف جوابات اس بنا پر ہیں کہ سائل کے احوال مختلف ہوتے ہیں، اس کی ضرورت کو دیکھ کر جواب دیاجاتا ہے مثلاً: ایک شخص نماز کا پابند ہے روزے بھی رکھتا ہے لیکن طبیعت میں ذرا بخل ہے تو اس شخص کو ایسا عمل بتایا جائے گا جو اس کمی کا علاج کرسکے۔ اس طرح ایک شخص مہمان نواز ہے، رحمدل بھی ہے لیکن نماز میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے نماز کے متعلق تلقین کی جائے گی کہ یہ افضل عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی مربی ہیں، اس لیے جس عمل کی کمی دیکھتے ہیں اسی کی ترغیب دلائی ہے۔ 5۔ [أَيُّ الإِسْلامِ أَفْضَلُ] اور [أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ] میں افضل اورخیراگرچہ دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، تاہم افضل کے معنی کثرت ثواب کے ہیں جو قلت کے مقابلے میں ہے اور خیر کے معنی نفع ہیں جو شر کے مقابلے میں ہے۔ پہلا سوال مقدار سے متعلق ہے جبکہ دوسرے سوال کاتعلق میعار سے ہے۔ (شرح الکرماني: 92/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
12
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
12
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
12
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
12
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
امور ایمان کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ اس میں کمی بیشی کا اثبات ہونیز مرجیہ کو بھی تردید ہوجائے جو ایمان میں اعمال کی تاثیر کے قائل نہیں ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ کھانا کھلانا اور سلام پھیرنا بھی امور ایمان سے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا، کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ اور سب کو سلام کرو، (عام اس سے کہ) تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے پہلے مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس حدیث میں ایصال نفع کا ذکر ہے کھانا کھلانا ہاتھ سے اور سلام کرنا زبان سے نفع پہنچانا ہے ایک مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔ 2۔ اطعام طعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا اور کسی کی ضیافت کرنا شامل ہیں۔ اس کا تعلق مالی مکارم سے ہے۔ اسی طرح مسلمان کو سلام کرنا، خواہ آشنا ہو یا بیگانہ، بدنی مکارم سے متعلق ہے، گویا مالی اور بدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام اورایمان نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے نیز جس انسان میں مکارم اخلاق، خواہ مالی ہوں یا بدنی، زیادہ ہوں گے اس کا ایمان اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔ اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور نہ ان کے چھوڑنے سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔ 3۔ اطعام طعام میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں ہے بلکہ جانوروں تک کے کھلانے میں اجر وثواب ہوتا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث میں اس کی صراحت ہے، البتہ مسلمان کو کھلانے میں اجرزیادہ ہوگا، وہاں سلام کرنے میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی، کیونکہ کفار اور منکرین حق کو سلام کہنا درست نہیں ہے۔ اہل کتاب کو پہلے سلام نہیں کہنا چاہیے۔اگر وہ سلام کہیں تو صرف وعلیکم سے جواب دیاجائے۔ 4۔ ایک ہی سوال کے مختلف جوابات اس بنا پر ہیں کہ سائل کے احوال مختلف ہوتے ہیں، اس کی ضرورت کو دیکھ کر جواب دیاجاتا ہے مثلاً: ایک شخص نماز کا پابند ہے روزے بھی رکھتا ہے لیکن طبیعت میں ذرا بخل ہے تو اس شخص کو ایسا عمل بتایا جائے گا جو اس کمی کا علاج کرسکے۔ اس طرح ایک شخص مہمان نواز ہے، رحمدل بھی ہے لیکن نماز میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے نماز کے متعلق تلقین کی جائے گی کہ یہ افضل عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی مربی ہیں، اس لیے جس عمل کی کمی دیکھتے ہیں اسی کی ترغیب دلائی ہے۔ 5۔ [أَيُّ الإِسْلامِ أَفْضَلُ] اور [أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ] میں افضل اورخیراگرچہ دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، تاہم افضل کے معنی کثرت ثواب کے ہیں جو قلت کے مقابلے میں ہے اور خیر کے معنی نفع ہیں جو شر کے مقابلے میں ہے۔ پہلا سوال مقدار سے متعلق ہے جبکہ دوسرے سوال کاتعلق میعار سے ہے۔ (شرح الکرماني: 92/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن خالد نے، ان کو لیث نے، وہ روایت کرتے ہیں یزید سے، وہ ابوالخیر سے، وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا : ’’یہ کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺنے تو کل الطعام کی بجائے تُطْعِمُ الطَّعَامَ فرمایا۔ اس لیے کہ اطعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا، کسی چیز کا چکھانا اور کسی کی ضیافت کرنا اور علاوہ ازیں کچھ بطور عطا بخشش کرنا وغیرہ یہ سب داخل ہیں۔ ہرمسلمان کو سلام کرنا خواہ وہ آشنا ہو یا بیگانہ، یہ اس لیے کہ جملہ مومنین باہمی طور پر بھائی بھائی ہیں، وہ کہیں کے بھی باشندے ہوں، کسی قوم سے ان کا تعلق ہو مگر اسلامی رشتہ اور کلمہ توحیدکے تعلق سے سب بھائی بھائی ہیں۔ اطعام طعام مکارم مالیہ سے اور اسلام مکارم بدنیہ سے متعلق ہیں۔ گویا مالی وبدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس لیے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عبادات داخل اسلام ہیں اور اسلام وایمان نتائج کے اعتبارسے ایک ہی چیز ہے اور یہ کہ جس میں جس قدربھی مکارم اخلاق بدنی ومالی ہوں گے، اس کا ایمان و اسلام اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ان کا یہ قول سراسر ناقابل التفات ہے۔ اس روایت کی سند میں جس قدر راوی واقع ہوئے ہیں وہ سب مصری ہیں اور سب جلیل القدر ائمہ اسلام ہیں۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری اسی کتاب الإیمان میں آگے چل کر ایک اور جگہ لائے ہیں۔ اور باب الإستیذان میں بھی اس کو نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اور امام نسائی نے اس کو کتاب الإیمان میں نقل کیا ہے اور امام ابوداؤد نے باب الأدب میں اور امام ابن ماجہ نے باب الأطعمه میں۔ غرباءومساکین کو کھانا کھلانا اسلام میں ایک مہتم بالشان نیکی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں جنتی لوگوں کے ذکرمیں ہے : ﴿وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴾ (الدهر: 8) ’’نیک بندے وہ ہیں جو اللہ کی محبت کے لیے مسکینوں،یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں بھوک وتنگ دستی کا اتنا مقابلہ کیاجائے کہ کوئی بھی انسان بھوک کا شکار نہ ہوسکے اور سلامتی وامن کو اتنا وسیع کیا جائے کہ بدامنی کا ایک معمولی سا خدشہ بھی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام کا یہ مشن خلفائے راشدین کے زمانہ خیرمیں پورا ہوا اور اب بھی جب اللہ کو منظور ہوگا یہ مشن پورا ہوگا۔ تاہم جزوی طور پر ہرمسلمان کے مذہبی فرائض میں سے ہے کہ بھوکوں کی خبرلے اور بدامنی کے خلاف ہر وقت جہاد کرتا رہے۔ یہی اسلام کی حقیقی غرض وغایت ہے۔ اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): A man asked the Prophet (ﷺ) , "What sort of deeds or (what qualities of) Islam are good?" The Prophet (ﷺ) replied, 'To feed (the poor) and greet those whom you know and those whom you do not know (See Hadith No. 27).