تشریح:
1۔ اس سے پہلے مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس حدیث میں ایصال نفع کا ذکر ہے کھانا کھلانا ہاتھ سے اور سلام کرنا زبان سے نفع پہنچانا ہے ایک مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔
2۔ اطعام طعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا اور کسی کی ضیافت کرنا شامل ہیں۔ اس کا تعلق مالی مکارم سے ہے۔ اسی طرح مسلمان کو سلام کرنا، خواہ آشنا ہو یا بیگانہ، بدنی مکارم سے متعلق ہے، گویا مالی اور بدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام اورایمان نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے نیز جس انسان میں مکارم اخلاق، خواہ مالی ہوں یا بدنی، زیادہ ہوں گے اس کا ایمان اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔ اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور نہ ان کے چھوڑنے سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔
3۔ اطعام طعام میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں ہے بلکہ جانوروں تک کے کھلانے میں اجر وثواب ہوتا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث میں اس کی صراحت ہے، البتہ مسلمان کو کھلانے میں اجرزیادہ ہوگا، وہاں سلام کرنے میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی، کیونکہ کفار اور منکرین حق کو سلام کہنا درست نہیں ہے۔ اہل کتاب کو پہلے سلام نہیں کہنا چاہیے۔اگر وہ سلام کہیں تو صرف وعلیکم سے جواب دیاجائے۔
4۔ ایک ہی سوال کے مختلف جوابات اس بنا پر ہیں کہ سائل کے احوال مختلف ہوتے ہیں، اس کی ضرورت کو دیکھ کر جواب دیاجاتا ہے مثلاً: ایک شخص نماز کا پابند ہے روزے بھی رکھتا ہے لیکن طبیعت میں ذرا بخل ہے تو اس شخص کو ایسا عمل بتایا جائے گا جو اس کمی کا علاج کرسکے۔ اس طرح ایک شخص مہمان نواز ہے، رحمدل بھی ہے لیکن نماز میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے نماز کے متعلق تلقین کی جائے گی کہ یہ افضل عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی مربی ہیں، اس لیے جس عمل کی کمی دیکھتے ہیں اسی کی ترغیب دلائی ہے۔
5۔ [أَيُّ الإِسْلامِ أَفْضَلُ] اور [أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ] میں افضل اورخیراگرچہ دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، تاہم افضل کے معنی کثرت ثواب کے ہیں جو قلت کے مقابلے میں ہے اور خیر کے معنی نفع ہیں جو شر کے مقابلے میں ہے۔ پہلا سوال مقدار سے متعلق ہے جبکہ دوسرے سوال کاتعلق میعار سے ہے۔ (شرح الکرماني: 92/1)