تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کفن کم پڑ جائے تو سر ڈھانپنے کو ترجیح دی جائے، کیونکہ سر، پاؤں سے افضل ہے۔ اور پاؤں پر اذخر یا کوئی اور گھاس وغیرہ ڈال دی جائے۔ لوگوں کے سامنے دست سوال نہ پھیلایا جائے۔ اس مسئلے کے لیے درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد کے دو، دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں جمع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1343) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر میت کے ترکے میں اسی قدر کفن دستیاب ہو تو اس پر ہی اکتفا کیا جائے۔ اسے دفن کرنے کے لیے مزید کسی چیز کا انتظار نہ کیا جائے۔
(2) اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو کفن دینے کی کیفیت بیان ہوئی ہے، جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت حمزہ ؓ کو بھی اسی طرح کفن دینے کی روایت بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري:181/3) اس حدیث میں صدر اول کے مسلمانوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس قسم کی دنیوی زندگی بسر کرتے تھے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ فقروفاقہ کی صعوبتیں برداشت کرنا نیک لوگوں کی منازل ہیں۔