تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی اپنے نادار خاوند اور ماں اپنے مفلس بچوں پر خیرات کر سکتی ہے اور انہیں زکاۃ بھی دے سکتی ہے۔ حضرت زینب ؓ کا زیورات کے متعلق سوال کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فرض زکاۃ کے بارے میں تھا۔ اگر اسے نفلی صدقہ پر محمول کر لیا جائے تو امام بخاری ؒ نے اس پر فرض صدقہ کو قیاس کیا ہے۔ (2) حضرت زینب کا دوسرا نام رائطہ ہے۔ ان کے متعلق ایک اور واقعہ بھی احادیث میں منقول ہے کہ یہ دستکاری کی ماہر تھیں اور اسے انہوں نے ذریعہ معاش بنایا تھا۔ اس کمائی سے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے کہا: ایسے حالات میں صدقہ و خیرات کے لیے کچھ بھی پس انداز نہیں ہوتا، نہ کسی دوسرے پر خیرات کرنے کا موقع ہی ملتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اگر تجھے اس سے ثواب کی امید نہیں تو بلاشبہ ہم پر خرچ کرنا چھوڑ دو، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ان پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ان پر خرچ کرتی رہو تمہیں اس پر اجروثواب ضرور ملے گا۔‘‘ (مسندأحمد:503/3) (3) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ٹانگوں سے کچھ معذور تھے اور زیادہ محنت و مزدوری کرنے کے قابل نہ تھے، اس لیے ان کی بیوی گھر کے اخراجات پورے کرتی تھی۔