قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا}وَكَمُ الغِنَى)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «وَلاَ يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ» لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الأَرْضِ} [البقرة: 273] إِلَى قَوْلِهِ {فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ} [البقرة: 215]

1478. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ قَالَ فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا قَالَ فَسَكَتُّ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا قَالَ فَسَكَتُّ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا يَعْنِي فَقَالَ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ وَعَنْ أَبِيهِ عَنْ صَالِحٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ بِهَذَا فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَجَمَعَ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي ثُمَّ قَالَ أَقْبِلْ أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ فَكُبْكِبُوا قُلِبُوا فَكُبُّوا مُكِبًّا أَكَبَّ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِعْلُهُ غَيْرَ وَاقِعٍ عَلَى أَحَدٍ فَإِذَا وَقَعَ الْفِعْلُ قُلْتَ كَبَّهُ اللَّهُ لِوَجْهِهِ وَكَبَبْتُهُ أَنَا قال أبو عبد الله: صالح بن كيسان أكبر من الزهري، وهو قد أدرك ابن عمر

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریمﷺکا یہ فرمانا کہ وہ شخص جو بقدر کفایت نہیں پاتا ( گویا اس کو غنی نہیں کہہ سکتے ) اور ( اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے کہ ) صدقہ خیرات تو ان فقراءکے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں گھر گئے ہیں۔ کسی ملک میں جانہیں سکتے کہ وہ تجارت ہی کرلیں۔ ناواقف لوگ انہیں سوال نہ کرنے کی وجہ سے غنی سمجھتے ہیں۔ آخر آیت فان اللہ بہ علیم تک ( یعنی وہ حد کیا ہے جس سے سوال ناجائز ہو )باب کی حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے شاید امام بخاری  کو اس کے متعلق کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جو ان کی شرط پر ہو۔

1478.

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ  سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں ایک جماعت میں بیٹھا ہواتھا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں کچھ مال دیا اور ایک آدمی کو چھوڑ دیا، اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ شخص مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھ کر گیا اور راز داری کے طور پر عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! کیا بات ہے آپ ﷺ نے فلاں شخص کو نظر انداز کردیاہے؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:’’مومن نہیں اسے مسلمان کہو۔‘‘ میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کا وہ حال جو مجھے معلوم تھا مجھ پر غالب آگیا تو میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! کیابات ہے آپ نے فلاں شخص سے کیوں اعراض کیا ہے؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:’’مومن کی بجائے مسلمان کہو۔‘‘ حضرت سعد ؓ  کہتے ہیں کہ میں پھر کچھ دیر خاموش رہا، لیکن مجھ پر پھر وہ بات غالب آگئی جو میں اس کے متعلق جانتا تھا، میں نے پھر عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !کیا بات ہے آپ نے فلاں شخص کو چھوڑ دیا ہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں، آپ نے فرمایا:’’مومن کے بجائے مسلمان کہو۔‘‘اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا:’’میں کسی شخص کو مال دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اور اس اندیشے کے پیش نظر دیتا ہوں، مبادا وہ چہرے کے بل دوزخ میں گر جائے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓ  نے کہا:پھر رسول اللہ ﷺ نے میری گردن اور کندھے کے درمیان اپنا ہاتھ مارا اور فرمایا:’’اے سعد!متوجہ ہوجاؤ، بے شک میں ایک شخص کو اس لیے دیتا ہوں۔۔۔‘‘ امام بخاری ؒ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں فَكُبْكِبُوا کے معنی الٹا ڈال دیے جانے کے ہیں، اس طرح مُكِبًّا کا لفظ ہے، یہ أكب سے مشتق ہے، یہ اس وقت بولاجاتا ہے جب اس کا فعل کسی دوسرے پر واقع نہ ہو، یعنی أكب الرجل فعل لازم ہے اور جب کسی دوسرے پر واقع ہوتو كبه الله لوجهه کہتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اوندھے منہ گرایا اور كببته کے معنی ہیں:میں نے اسے گرایا۔