تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات ؓ کے غلاموں اور لونڈیوں کو صدقہ دینا جائز ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور لونڈی صدقہ نہیں لے سکتے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو مخزوم کے ایک آدمی کو زکاۃ کی وصولی پر مقرر فرمایا، اس نے حضرت ابو رافع ؓ سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو، تمہیں بھی اس میں سے کچھ حصہ مل جائے گا، انہوں نے کہا: میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق دریافت نہ کر لوں، چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’قوم کا آزاد کردہ غلام بھی انہیں میں شمار ہوتا ہے اور ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1650) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلاموں کے لیے بھی فرضی و نفلی دونوں قسم کا صدقہ حرام ہے، البتہ خود ازواج مطہرات ؓ رسول اللہ ﷺ کی آل میں شامل ہیں اور ان کے لیے صدقہ و خیرات حرام ہے، جیسا کہ خلال نے اس روایت کو نقل کیا ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم آل محمد ﷺ سے ہیں اور ہمارے لیے صدقہ حرام ہے۔ (فتح الباري:448/3) اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ خالد بن سعید نے حضرت عائشہ ؓ کو کچھ صدقہ بھیجا تو انہوں نے فرمایا: ’’ہم آل محمد ﷺ سے تعلق رکھتی ہیں، ہمارے لیے صدقہ جائز نہیں۔‘‘ (المصنف لابن أبي شیبة:214/3، وعمدةالقاري:545/6)