تشریح:
1۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ استنجا کے لیے دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ قدرت نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فضیلت دی ہے۔ اس لیے اس کی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس سے ادنیٰ اور ارذل کام نہ لیے جائیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کھانے کے وقت دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے جب کھانا کھاتے وقت استنجا سے متعلقہ بات یاد آئے گی توطبیعت میں تکدر اور ناگواری پیدا ہوگی۔ اہل ظاہر کے نزدیک یہ نہی حرمت کے لیے ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگردائیں ہاتھ سے استنجا کیا تو اس سے طہارت نہیں ہوگی جبکہ جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ اس کا تعلق آداب سے ہے۔ (عمدة القاري: 420/2)
2۔ حدیث میں استنجا کے متعلق دو جملے استعمال ہوئے ہیں: پہلا یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے عضو مستور کو نہ چھوئے۔ اس کا تعلق پیشاب سے ہے۔ اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ اس سے مراد ہے کہ فراغت کے بعد دائیں ہاتھ کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ پیشاب کرتے وقت کبھی کبھی چھینٹوں سے بچنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے اور فراغت کے بعد استنجا میں ڈھیلے یا پانی استعمال کرتے وقت ہاتھ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حدیث نے وضاحت سے بتا دیا کہ ایسی چیزوں میں دائیں ہاتھ کا استعمال نامناسب ہے۔ یہ اس ہاتھ کی شرافت ومنزلت کے خلاف ہے۔ (عمدة القاري: 420/2)
3۔ پانی پیتے وقت بھی برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی گندی بھاپ پانی کو مکدر کردیتی ہے اور پانی دوسروں کے پینے کے قابل نہیں رہتا، نیز سانس لینے سے ممکن ہے کہ لعاب دہن یا ناک کی رطوبت پانی میں گر جائے۔ اس کے علاوہ یہ حیوانوں کی عادت ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ پانی کے برتن میں منہ ڈال دیتے ہیں تو پانی بھی پیتے رہتے ہیں اور سانس بھی لیتے رہتے ہیں، لہٰذا شریعت نے پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع فرما دیا۔ اسلامی ادب یہ ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کردیا جائے اور تین سانس لے کر پانی پیا جائے۔ (فتح الباري: 333/1)