تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا تو دور کی بات ہے، پیشاب کرتے وقت عضو مستور کو بھی دائیں ہاتھ سے نہیں چھونا چاہیے۔ دائیں ہاتھ کی قدر و منزلت کا تقاضا ہے کہ اسے ہرحالت میں عضو مستور سے الگ رکھا جائے اور اسے صرف اچھے کاموں میں استعمال کیاجائے۔ نامناسب اور مکروہ کاموں کے لیے بائیں ہاتھ کو کام میں لایا جائے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ پیشاب کرنے کے بعد وضو فرماتے اور وضو سے بچا ہوا پانی بھی بسا اوقات نوش فرما لیتے، ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز پیشاب کے آداب کے ساتھ پینے کے آداب سے آگاہ کیا گیا ہے اس لیے فرمایا کہ برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے۔ یہ حکم بھی پانی پینے کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ ’’جب تم میں سے کوئی برتن میں پانی پیے تو اسے برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے۔‘‘ (فتح الباري: 834/1)
3۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ پانی پیتے وقت ایک ہی سانس میں نہیں پینا چاہیے۔ (سنن أبي داؤد، الطھارة، حدیث: 31) صحیح بخاری کی روایت کا تقاضا ہے کہ انسان جب پانی نوش کرے تو برتن میں سانس نہ لے تاکہ سانس کےذریعے سے جو جراثیم وغیرہ خارج ہوتے ہیں وہ پانی میں سرایت نہ کرجائیں اور ابوداؤد کی روایت میں پانی پینے کا ایک دوسرا ادب بیان کیا گیا ہے کہ پانی پیتے وقت ایک ہی سانس میں نہیں پینا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا حیوانوں کا کام ہے بلکہ اپنی پیاس کو تین سانسوں میں بجھانا چاہیے۔ واللہ أعلم۔