تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میں قربانی ساتھ نہ لایا ہوتا تو اس احرام کو عمرے سے بدل لیتا اور حج تمتع کرتا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق حج قران اور حج تمتع کا ثبوت واضح ہے۔ (2) تلبید کے معنی یہ ہیں کہ محرم آدمی اپنے سر پر لوشن وغیرہ لگا لے تاکہ بال بکھرنے نہ پائیں اور ان میں جوئیں نہ پڑیں۔ اور اس کا ضرورت مند وہ شخص ہوتا ہے جس کی احرام کی مدت لمبی ہو اور وہ اعمال مناسک ادا کرنے کے لیے زیادہ عرصہ ٹھہرنا چاہتا ہو۔ (3) تقلید کے معنی یہ ہیں کہ قربانی کے جانور کے گلے میں کوئی جوتا وغیرہ لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ تقلید سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ احرام اس وقت تک رہے گا جب قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ بہرحال جو شخص حج قران کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہونا ضروری ہے۔