تشریح:
: (1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا جائز ہے، خواہ وہ قربانی فرض ہو یا نفل کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے مالک سے اس قسم کی تفصیل دریافت نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض یا نفل قربانی کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت علی ؓ سے سوال ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب پیدل چلنے والے لوگوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیتے۔ اس معاملے میں ضرورت کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے اور جب ضرورت ختم ہو جائے تو انہیں سواری کے لیے استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے جانور پر اچھے انداز میں سواری کی جائے جبکہ تجھے اس کی ضرورت ہو یہاں تک کہ دوسری سواری مل جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3214(1324)) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر اور سواری دستیاب ہو تو قربانی کے جانور کو آزاد چھوڑ دیا جائے، چنانچہ امام بیہقی ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (يركب إذا اضطر ركوبا غير قادح) ’’جب سواری کی ضرورت ہو تو قربانی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے۔‘‘ لیکن ان جانوروں کو بطور اجرت سواری کے لیے نہ دیا جائے۔ (فتح الباري:679/3) (2) دراصل دور جاہلیت میں لوگ کچھ جانوروں کو مذہبی نذرونیاز کے طور پر چھوڑ دیتے تھے۔ ان پر سواری کرنا ان کے ہاں معیوب تھا۔ قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی یہی تصور تھا۔ اسلام نے اسے غلط قرار دیا کیونکہ قربانی کے جانور ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں بالکل معطل کر دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اصرار کے ساتھ بار بار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستے میں تھکاوٹ سے محفوظ رہو۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھا ہے۔