تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کو چھ طرق سے بیان کیا، کچھ متن کے ساتھ اور کچھ متن کے بغیر۔ چھ طرق اس طرح ہیں: (1) عبدالعزيز بن رفيع، عن عطاء، عن ابن عباس۔ (2) قيس بن سعد، عن عطاء، عن جابر۔ (3) ابن خثيم، عن عطاء، عن ابن عباس۔ (4) عباد بن منصور، عن عطاء، عن جابر۔ (5) ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس۔ (6) عكرمة، عن ابن عباس۔ تیسرے طریق سے یہ روایت معلق بیان ہوئی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ چوتھے طریق کی معلق روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ پانچویں طریق کی معلق روایت کو سنن نسائی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (عمدةالقاري:335/7) مذکورہ تمام روایات حجۃ الوداع سے متعلق ہیں۔ اس سال لوگوں کی کثیر تعداد حج میں شامل ہوئی۔ بعض نے ناواقفیت کی وجہ سے دسویں ذوالحجہ کے کام آگے پیچھے کر لیے کیونکہ اس دن پہلے رمی کی جاتی ہے، پھر قربانی ذبح کرنی ہوتی ہے، اس کے بعد حجامت بنوانا، پھر آخر میں طواف زیارت کرنا ہوتا ہے، نیز اس دن رمی بھی غروب آفتاب سے پہلے کرنی ہوتی ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے اگر ان افعال کو آگے پیچھے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دسویں ذوالحجہ کو منیٰ میں لوگوں کے لیے تشریف لائے، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے لاعلمی کی بنا پر قربانی سے قبل اپنا سر منڈوا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اب ذبح کر دے کوئی حرج نہیں۔‘‘ دوسرے نے عرض کی: اللہ کے رسول! ناواقفیت کی وجہ سے میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس دن آپ سے اس تقدیم و تاخیر کے متعلق جو بھی سوال ہوا تو آپ نے یہی جواب دیا کہ جاؤ اب کر لو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3156(1306)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کرنے، سر منڈوانے، کنکریاں مارنے اور ان میں تقدیم و تاخیر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1734) (2) امام بخاری ان احادیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہیے کیونکہ سائل کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا علم تھا کہ قربانی حلق سے پہلے ہے لیکن اس نے اس کے برعکس کر لیا تھا۔ امام بخاری ؒ کے استدلال کی یہی بنیاد ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر منڈوانے سے پہلے قربانی کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث:1811) اگرچہ مذکورہ ترتیب عمرۂ حدیبیہ کے موقع کی ہے، تاہم حج میں بھی مسنون ترتیب یہی ہے جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اسے ثابت کیا ہے۔ (حجةالنبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني،ص:85) الغرض یہ ترتیب مسنون ہے، فرض نہیں۔ اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔