تشریح:
1۔حضرت عمر، ابن عمر اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا یہ موقف تھا کہ حائضہ عورت کے لیے بھی طواف وداع کرنا ضروری ہے لیکن حضرت ابن عمر اور زید بن ثابت ؓ نے اس موقف سے رجوع کر لیا، البتہ مذکورہ حدیث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمر ؓ کا اپنے موقف سے رجوع ثابت نہیں۔ بہرحال طواف وداع واجب ہے لیکن حائضہ عورت سے ساقط ہے اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ بھی نہیں ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں کتاب الحیض میں بھی ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب المرأة تحيض بعد الإفاضة) ’’اس عورت کا بیان جسے طواف افاضہ کے بعد حیض آ جائے۔‘‘ تمام صحابۂ کرام ؓ کا موقف تھا کہ جب کسی عورت نے حیض سے قبل طواف افاضہ کر لیا ہو تو اسے طواف وداع کی ضرورت نہیں، وہ اگر چاہے تو اپنے وطن واپس آ سکتی ہے، البتہ حضرت عمر ؓ اسے اجازت نہیں دیتے تھے، چنانچہ حضرت حارث ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: طواف وداع کر کے واپس جائے۔ حضرت حارث ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسی طرح فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2004) لیکن حدیث عائشہ اور حدیث ام سلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورت کے لیے طواف وداع کی پابندی منسوخ ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) امام بخاری ؒ نے حضرت عکرمہ کی حدیث انتہائی اختصار سے بیان کی ہے۔ بیان کردہ حضرت خالد الحذاء کی متابعت کو امام بیہقی نے اور قتادہ کی متابعت کو ابوداود طیالسی نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا حائضہ عورت کے متعلق اختلاف ہوا جبکہ اس نے دس تاریخ کو طواف زیارت کر لیا ہو، آیا اس کے لیے طواف وداع ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت زید ؓ نے فرمایا: اس کے لیے طواف وداع ضروری ہے جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف تھا کہ وہ طواف وداع کے بغیر ہی وطن واپس جا سکتی ہے۔ انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہم حضرت زید بن ثابت ؓ کے مقابلے میں آپ کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم اس سلسلے میں حضرت ام سلیم ؓ سے دریافت کرو، چنانچہ انہوں نے پوچھا تو ام سلیم ؓ نے بتایا: وہ طواف افاضہ کرنے کے بعد حیض سے دوچار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے طواف وداع کیے بغیر مجھے واپس جانے کی اجازت دی۔ اسی طرح حضرت صفیہ ؓ کو حیض آ گیا تو آپ نے انہیں بھی کوش کرنے کا حکم دیا۔ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (فتح الباري:742/3)