تشریح:
(1) اِدلاج اگر دال پر تشدید ہو تو اس کے معنی رات کے آخری حصے میں سفر کرنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وادئ محصب میں جہاں رات بسر کی ہو وہاں سے سحری کے وقت روانگی ہو جائے۔ (2) امام بخاری ؒ نے یہاں دو روایات ذکر کی ہیں۔ چونکہ دونوں ایک ہی قصے پر مشتمل ہیں، اس لیے ان کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے کہ ہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے۔ اگرچہ پہلی روایت میں صراحت نہیں، تاہم واقعہ ایک ہونے کی وجہ سے پہلی روایت بھی عنوان کے مطابق ہی خیال کی جائے گی۔ (عمدةالقاري:397/7) (3) رسول اللہ ﷺ نے ازراہ محبت حضرت صفیہ ؓ کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ عقریٰ، حلقیٰ، بانجھ، سرمنڈی۔ ان الفاظ سے رحمت و شفقت ٹپکتی ہے جیسا کہ ایسے موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا: ’’حیض ایک معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے بددعا دینا مراد نہیں اور نہ اظہار خفگی مقصود ہے۔ (فتح الباري:744/3) (4) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تالیف قلبی کے لیے فرمایا: ’’اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ جا کر مقام تنعیم سے عمرے کا احرام باندھ لو اور عمرہ کر لو‘‘ کیونکہ انہوں نے دوسری امہات المومنین ؓ کی طرح مستقل عمرہ کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ چونکہ عورتوں کے لیے تنہا سفر کرنا مناسب نہیں، اس لیے ان کے بھائی کو ساتھ روانہ فرمایا۔