تشریح:
(1) بعض روایات میں اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ حضرت علقمہ اور شریح بن ارطاۃ حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرو کہ روزہ دار اپنی بیوی سے بوس و کنار کر سکتا ہے؟ اس وقت حضرت عائشہ ؓ نے مذکورہ حدیث بیان کی۔ (فتح الباري:1904) حضرت عائشہ بنت طلحہ کہتی ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھی کہ میرا خاوند (عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابوبکر) بھی وہاں آیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: تو اپنی بیوی سے بوس و کنار کیوں نہیں کرتا؟ انہوں نے کہا: کیا میں بحالت روزہ اس کو بوسہ دے سکتا ہوں؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ (الموطأ للإمام مالك:270/1، حدیث:661) (2) اگر کسی روزہ دار کو اپنے آپ پر کنٹرول ہو کہ بیوی سے بوس و کنار کرنے سے شہوت پیدا نہیں ہو گی تو اس کے لیے اپنی بیوی سے بغلگیر ہونا جائز ہے، بصورت دیگر جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر قابر نہ رکھتے ہوئے جماع کر بیٹھے اور اپنا روزہ خراب کر لے۔ چونکہ حدیث میں لفظ "إرب" آیا ہے اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے قرآنی الفاظ کی لغوی تشریح فرمائی ہے۔