تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے پہلے حضرت رافع بن خدیج کی حدیث حضرت حسن بصری کے حوالے سے بیان کی تھی کہ پچھنے لگوانے والے اور لگانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:774) اس کے بعد حضرت ابن عباس اور حضرت انس ؓ کی روایات بیان کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض ہے۔ امام بخاری ؒ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی سے روزہ ٹوٹنے کی روایات منسوخ ہیں کیونکہ فتح مکہ کے وقت ایک شخص روزے کی حالت میں سینگی لگوا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان دونوں کا روزہ جاتا رہا۔‘‘ اور ابن عباس ؓ کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی اور یہ دس ہجری کا واقعہ ہے جبکہ مکہ آٹھ ہجری میں فتح ہوا۔ یہ ایک اصول ہے کہ بعد والی حدیث پہلے والی کے لیے ناسخ ہوتی ہے، نیز ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں سینگی لگوائی، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ (فتح الباري:226/4) (2) بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ سینگی لگانے اور لگوانے والے خود کو افطار کے لیے پیش کرتے ہیں، اس لیے کہ سینگی لگوانے والا جب خون چوستا ہے تو اس کے پیٹ میں خون جانے کا اندیشہ بدستور رہتا ہے اور سینگی لگوانے والا کمزوری کی وجہ سے روزہ توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حضرت انس ؓ کی حدیث میں اشارہ ملتا ہے کہ سینگی لگوانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا بلکہ اس سے کمزوری آ جاتی ہے۔ (فتح الباري:227/4) بہرحال سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس کی مزید تائید حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگی لگوانے کی اجازت دی تھی۔ (مصنف ابن أبي شیبة:53/3) ہمیشہ رخصت، عزیمت کے بعد ہوتی ہے۔ حافظ ابن حزم ؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:227/4)