تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق اس سال اکیسویں تاریخ کو شب قدر تھی۔ (2) دیگر احادیث سے ستائیسویں رات کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ شب قدر ہے۔ عین ممکن ہے کہ جس سال صحابۂ کرام ؓ کو اس رات کا ادراک ہوا اس سال وہی شب قدر تھی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی رات شب قدر ہو گی۔ اس رات کی تعیین کے متعلق علمائے امت کے بہت سے اقوال ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں 46 اقوال نقل فرمائے ہیں۔ آخر میں اپنا فیصلہ بایں الفاظ دیا ہے: ان سب میں ترجیح اس قول کو ہے کہ یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے۔ شوافع نے اکیسویں رات کو شب قدر قرار دیا ہے اور جمہور ستائیسویں رات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جا سکتا، نیز یہ ایک پوشیدہ رات ہے اور اس رات کے مخفی ہونے میں حکمت یہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے کوشش جاری رکھی جائے۔ اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اسی رات پر ہی اکتفا کر لیا جاتا۔ (فتح الباري:338/4) واللہ أعلم