تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی غرض وسوسہ زدہ لوگوں کے خوف کو بیان کرنا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں جیسا کہ کوئی کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور شخص نے کیا ہوگا، اس سے وہ جانور بھاگ گیا اور اس کے ہتھے چڑھ گیا۔پیش کردہ حدیث میں بھی اس قسم کا وسوسہ بیان ہوا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ (2) مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کانام ضرور لیا ہوگا۔یہ شبہ کرنا کہ شاید اس نے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا ہو محض ایک وسوسہ اور شبہ ہے۔ اس کا خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ خود بسم اللہ پڑھ کر اسے استعمال کرلینا چاہیے۔ ان ہر دو روایات سے معلوم ہوا کہ وسوسے ان شبہات میں داخل نہیں ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ وسوسے جب تک دل میں جاگزیں نہ ہوں اور قرار نہ پکڑیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا۔(3)حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنے کی دلیل ہے، نیز یہ کہ مسلمانوں کے امور کمال پر محمول ہیں۔خصوصاً اس زمانے میں جب ہر مسلمان دین اسلام سے بخوبی واقف ہو۔(فتح الباري:375/4)