تشریح:
(1)ان احادیث سے پیشۂ زرگری کا جواز ملتا ہےاگرچہ یہ حضرات بہت سے ناجائز کام بھی کرتے ہیں اور پالش کے نام سے زائد رقم بٹورتے ہیں۔حالانکہ پالش کرنے سےسونے کا وزن کم ہوجاتا ہے اور یہ لوگ پالش کا اضافی وزن سونے میں ڈالتے ہیں، اس کے بعد جب انھیں وہی زیور فروخت کریں تو رتی فی ماشہ کی شرح سے کٹوتی کرکے صافی وزن نکالتے ہیں۔ایسے کاموں سے گناہ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ پیشہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(2)پہلی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ پیشہ ور شخص سے فائدہ لینا جائز ہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔آخر میں پیش کردہ تعلیق کو خود ہی امام بخاری نے کتاب الجنائز،حدیث :1349 میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔(3)واضح رہے کہ ہر وحشی جانور انسان کو دیکھ کر دور ہی سے نفرت کرتا ہے۔یہ تنقیر انسان کے بس میں نہیں جس پر اسے گناہ گار کہا جاسکے۔ہاں اگر زیادتی انسان کی طرف سے ہو کہ اس جانور کو سایہ دار درخت سے بھگا کر خود وہاں پڑاؤ کرے تو اس سے مکہ کی حرمت پامال ہوگی۔غالباً اسی نکتے کی وجہ سے حضرت عکرمہ نے تنقیر کی تفسیر بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1349) والله اعلم.