قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ مَا قِيلَ فِي الصَّوَّاغِ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ طَاوُسٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ «لاَ يُخْتَلَى خَلاَهَا»، وَقَالَ العَبَّاسُ: إِلَّا الإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَبُيُوتِهِمْ، فَقَالَ: «إِلَّا الإِذْخِرَ»

2090. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي وَإِنَّمَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا يُلْتَقَطُ لُقْطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَلِسُقُفِ بُيُوتِنَا فَقَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَقَالَ عِكْرِمَةُ هَلْ تَدْرِي مَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا هُوَ أَنْ تُنَحِّيَهُ مِنْ الظِّلِّ وَتَنْزِلَ مَكَانَهُ قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ عَنْ خَالِدٍ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور طاؤس نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ( حجۃ الوداع کے موقع پر حرم کی حرمت بیان کرتے ہوئے ) فرمایا تھا کہ حرم کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس پر عباس ؓ نے عرض کیا کہ اذخر ( ایک خاص قسم کی گھاس ) کی اجازت دے دیجئے۔ کیوں کہ یہ یہاں کے سوناروں اور لوہاروں اور گھروں کے کام آتی ہے، تو آپ نے فرمایا، اچھا اذخر کاٹ لیا کرو۔ اس حدیث سے امام بخاری  نے یہ نکالا کہ سناری کا پیشہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی تھا۔ اور آپﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ تو یہ پیشہ جائز ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لاکر اس حدیث کے ضعف کی طرف اشادہ فرمایا ہے جسے امام احمد نے نکالا ہے جس میں مذکور ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹے سنار اور رنگریز ہوا کرتے ہیں اس کی سند میں اضطراب ہے۔

2090.

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قراردیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے یہ حلال نہ ہوااور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف(دن کی)ایک گھڑی حلال ہوا، لہٰذا اس کی گھاس کو نہ اکھاڑاجائے اور نہ اس کا درخت ہی کاٹا جائے۔ اس کا شکاربھی نہ بھگایا جائے اور نہ وہاں کی گری پڑی کسی چیز ہی کو اٹھایا جائے۔ ہاں وہ اٹھاسکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے۔ " حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہمارے سناروں اور گھروں کی چھتوں کے لیے اذخر کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا: "ہاں اذخر کی اجازت ہے۔ "(راوی حدیث)حضرت عکرمہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ شکار کے بھگانے سے کیا مراد ہے۔ ؟وہ یہ ہے کہ اسے سائے سے ہٹا کر خود وہاں پڑاؤ کرلے۔ عبدالوہاب نے خالد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے(اذخر کی اجازت دیجیے)۔