تشریح:
(1) لغوی طور پر اشیائے ضرورت کو فروخت سے روک لینا احتکار کہلاتا ہے۔ شرعی طورپر احتکار یہ ہے کہ نرخ بڑھنے کے انتظار میں اشیائے ضرورت کو روک لینا،انھیں فروخت نہ کرنا جبکہ عوام کو ان کی شدید ضرورت ہو اور جمع کرنے والا اس سے مستغنی ہو۔لیکن اگر کوئی شخص اس غلے کو ان ایام میں خرید کر ذخیرہ کرے جن میں یہ سستا ہویا اگر کوئی مہنگائی کے وقت میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے خریدتا ہے یا اسے خرید کر فوراً فروخت کردیتا ہے تو یہ احتکار نہیں اور نہ ایسا کرنا حرام ہی ہے۔(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے احتکار کا جواز پیش کیا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں غلے کو اپنے گھر یا دکان میں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر احتکار حرام ہوتا تو آپ یہ حکم نہ دیتے بلکہ خریدتے ہی فروخت کرنے کا حکم دے دیتے۔شاید ان کے نزدیک وہ حدیث ثابت نہیں ہے جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی وہی کرتا ہے جو گناہ گار ہے۔(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4122(1605)) نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس شخص نے لوگون پر ان کا غلہ ذخیرہ کرلیا اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ اور افلاس میں مبتلا کردے گا۔"( سنن ابن ماجہ،التجارات،حدیث:2155) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔(فتح الباري:4/440) لیکن غلے کو صرف گھر منتقل کرنا شرعی احتکار نہیں،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان کے نزدیک ذخیرہ اندوزی مخصوص حالات میں، مخصوص شرائط کے ساتھ منع ہے،اس کی مذمت میں متعدد احادیث مروی ہیں۔موجودہ حالات میں ذخیرہ اندوزی ایک سنگین جرم ہے جبکہ لوگ اس کے ضرورت مندہوں اور وہ قحط سالی کا شکار ہوں۔اگر لوگوں کو اشیائے ضرورت بہ سہولت دستیاب ہیں تو غلہ خرید کر ذخیرہ کر لینا منع نہیں۔والله أعلم.