تشریح:
(1)ان دونوں احادیث میں خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے قبل آگے فروخت کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے۔ جو چیز موجود نہ ہو اسے فروخت کرنے کی ممانعت کا ذکر ان احادیث میں نہیں ہے لیکن یہ ممانعت پہلے جز میں داخل ہے کیونکہ جو چیز پاس موجود نہ ہو اسے فروخت کرنا قبضے سے پہلے فروخت کے مترادف ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ کے واقعے میں اس کی صراحت ہے۔ انھوں نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور وہ مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے،میں اس کا سودا کرلیتا ہوں اور اسے وہ چیز بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں؟آپ نے فرمایا: ’’جو چیز تمھارے پاس موجود نہ ہو اسے فروخت نہ کرو۔‘‘ (مسند أحمد:402/3) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی چیز کی خریدو فروخت جائز نہیں جو فروخت کے وقت بیچنے والےکی ملکیت میں نہ ہو۔(2) واضح رہے کہ بعض اوقات مشتری کوئی چیز خریدتا ہے اور اس کا وزن کرنے کے بعد بائع کے پاس ہی رہنے دیتا ہے،یعنی اپنے قبضے میں نہیں لیتا،ایسی چیز کی آگے فروخت جائز نہیں۔ امام بخاری نے اسماعیل بن ابو اویس کے اضافے سے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري:442/4) حضرت ابن عباس ؓسے مروی حدیث میں چونکہ غلے کا ذکر تھا،اس لیے انھوں نے قیاس کیا کہ ہر چیز حکم میں غلے کی مانند ہے۔ دراصل انھیں حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی حدیث کا علم نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرو۔‘‘ (مسند أحمد:402/3) اسی طرح حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سودے کو ایسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرمایا جہاں اسے خریدا گیا ہو یہاں تک کے لوگ اسے اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔ (المستدرك للحاکم:40/2) بہر حال خریدی ہوئی چیز غلہ ہویا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ،قبضے سے پہلے اسےآگے فروخت کرنا منع ہے۔ ہماے ہاں کھل بنولہ خرید کر اسے کارخانے ہی میں رہنے دیا جاتا ہے۔ مالک کو قیمت ادا کرکے اس سے پرچی لےلی جاتی ہے، پھر اس پرچی کو آگے فروخت کردیا جاتا ہے ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔