تشریح:
(1) قبضے میں لینے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر خریدى ہوئی چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہو جیسا کہ درہم ودینار یا بازار کا سودا سلف وغیرہ تو اسے ہاتھ میں لینے سے قبضہ مکمل ہوجاتا ہے۔اگر کوئی جائیداد وغیرہ منقولہ ہے تو اس کا قبضہ یہ ہے کہ مالک اس سے دست برادر ہوجائے، مثلاً:زمین یا باغ کا قبضہ یہ ہے کہ مالک اسے خریدار کے حوالے کردے اور اگر کوئی چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے تو اس کا قبضہ یہ ہے کہ خریدار اسے ایسی جگہ منتقل کردے جہاں مالک کا عمل دخل نہ ہوجیسا کہ غلہ اور حیوان کی خریدوفروخت کے وقت ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر بیع کو ماپ تول کر مالک کے پاس ہی رہنے دیا جائے تو اسے شرعی قبضہ نہیں کہا جائے گا یہاں تک کہ مشتری اسے ایسی جگہ منتقل کردے جہاں مالک کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔(2)اس عنوان اور پیش کردہ حدیث کا یہی مقصد ہے کہ خریدی ہوئی چیز،خواہ ماپ تول کرلی جائے یا اندازے سے اس پر قبضے سے پہلے اسے فروخت کرنا صحیح نہیں جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں:جو چیز ماپ تول کے بغیر صرف اندازے سے خریدی جائے اسے قبضے کے بغیر بھی آگے فروخت کیا جاسکتا ہے۔یہ موقف حدیث کے خلاف تھا، اس لیے تردید ضروری تھی۔ (3)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم وقت خلاف شرع خریدوفروخت کرنے پر سزا دے سکتا ہے۔حاکم کو چاہیے کہ وہ منڈیوں میں اپنے کارندے تعینات کرے جو خلاف شرع کاموں کی نگہداشت کریں۔(فتح الباري:444/4)