تشریح:
(1) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مردارکی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہٰذا اس کی خریدوفروخت کو حرام نہیں فرمایا۔ (2) بظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مردار کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اگرچہ اسے رنگا نہ گیا ہو۔ امام زہری ؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔امام بخاری ؒ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ’’تم نے اس کی کھال کو رنگا کیوں نہیں اور پھر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:806(363)) اس سے معلوم ہوا کہ مردار کی کھال کو دباغت دیے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس کی خریدوفروخت ہی کرنی چاہیے۔ (3) امام بخاری ؒ کے موقف کی تاویل بایں الفاظ ہوسکتی ہے کہ ناپختہ چمڑے کی خریدوفروخت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کی رطوبت ختم ہوجائے، خواہ وہ رنگنے سے ہو یا دھوپ لگنے سے، اس بنا پر رنگنا جواز بیع کے لیے شرط نہیں۔ اصلاحی صاحب نے اس مقام پر ایک سوال اٹھایا ہے کہ رنگنے کا اس حدیث میں کہاں ذکر آیا جس کا تذکرہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں کیا ہے؟ ( تدبرحدیث:506/1) اس کا جواب یہ ہے کہ اهاب اس چمڑے کو کہتے ہیں جسے رنگا نہ گیا ہو کیونکہ دباغت کے بعد اسے قربه کہتے ہیں، اس لیے اصلاحی صاحب کا سوال بے محل ہے۔