تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میت کے قرض والے دودینار تیرے ذمے، تیرے مال میں سے ادا کرنا واجب ہیں اور میت ان سے بری ہوگئی۔‘‘ (المستدرک علی الصحیحین (طبع دارالمعرفة، بیروت):87/3) بظاہر یہ روایت متن میں مذکور روایت کے مخالف ہے کہ اس میں تین دینار کا ذکر ہے۔اس میں تطبیق یہ ہے کہ وہ قرض دو دینار سے زیادہ اور تین سے کم تھا۔ جس نے تین کہے اس نے کم پیسوں کا لحاظ کیے بغیر عدد پورا کردیا اور جس نے دو کہے اس نے اوپر والے پیسوں کو شمار نہیں کیا۔مقصد پورے قرض کی ادائیگی ہے۔ والله أعلم. اس سے امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کیا کہ میت پر جو قرض ہے اس کا حوالہ جائز ہے۔ (2) اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو ضمان ہے حوالہ نہیں جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے جبکہ عنوان میں حوالے کا ذکر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مفلس میت کی ضمان یہ ہے کہ اس کا قرض اس کے ذمے سے دوسرے ذمے کی طرف منتقل کیا جائے اور حوالے کے بھی یہی معنی ہیں۔ (3) امام ابو حنیفہ ؒ کا مؤقف ہے کہ اگر میت اپنے قرض کی مقدار جائیداد چھوڑ گیا ہے تو حوالہ صحیح ہے بصورت دیگر اس کی طرف سے ضمانت صحیح نہیں۔ یہ موقف مذکورہ حدیث کے صریح خلاف ہے۔ (4) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں امام بخاری ؒ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں، ایسی حدیث کو ثلاثی کہا جاتا ہے اور یہ ساتویں ثلاثی حدیث ہے۔