قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المُسَاقَاةِ (بَابُ الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ مَمَرٌّ أَوْ شِرْبٌ فِي حَائِطٍ أَوْ فِي نَخْلٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ بَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ [ص:115]، فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ»، فَلِلْبَائِعِ المَمَرُّ وَالسَّقْيُ حَتَّى يَرْفَعَ وَكَذَلِكَ رَبُّ العَرِيَّةِ

2382. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا مِنْ التَّمْرِ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ شَكَّ دَاوُدُ فِي ذَلِكَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اگر کسی شخص نے پیوندی کرنے کے بعد کھجور کا کوئی درخت بیچا تو اس کا پھل پیچنے والے ہی کا ہوتا ہے۔ اور اس باغ میں سے گزرنے اور سیراب کرنے کا حق بھی اسے حاصل رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا پھل توڑ لیا جائے۔ صاحب عریہ کو بھی یہ حقوق حاصل ہوں گے۔ تشریح : امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے اور ایک روایت امام احمد  سے بھی ایسے ہی ہے۔ امام شافعی  سے مروی ہے کہ اگر بائع نے اس غلام کو کسی مال کا مالک بنا دیا تھا۔ تو وہ مال خریدار کا ہوگیا، مگر یہ کہ بائع شرط کرلے۔ باب کی مناسبت اس طرح سے ہے کہ جب عریہ کا دینا جائز ہوا تو خواہ مخواہ عریہ والا باغ میں جائے گااپنے پھلوں کی حفاظت کرنے کو۔ یہ جو فرمایا کہ اندازہ کرکے اس کے برابر خشک کھجور کے بدل بیج ڈالنے کی اجازت دی ہے اس کا مطلب یہ کہ مثلاً ایک شخص دو تین درخت کھجور کے بطور عریہ کے لے۔ وہ ایک اندازہ کرنے والے کو بلائے وہ اندازہ کردے۔ کہ درخت پر جو تازی کھجور ہے وہ سوکھنے کے بعداتنی رہے گی اور یہ عریہ والا اتنی سوکھی کھجور کسی شخص سے درخت کا میوہ لے کر اس کے ہاتھ بیج ڈالے تو یہ درست ہے حالانکہ یوں کھجور کو کھجور کے بدل اندازہ کرکے بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال رہتا ہے۔ مگر عریہ والے اکثر محتاج بھوکے لوگ ہوتے ہیں تو ان کو کھانے کے لیے ضرورت پڑتی ہے اس لیے ان کے لیے یہ بیع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز فرما دی۔

2382.

حضرت ابو ہریرہ  ؓ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے اندازے سے خشک کھجور کے عوض پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم (مقدار)میں بیع عرایا کی اجازت دی۔ اس (مقدار ) میں راوی حدیث داود کو شک ہوا۔