تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اندازے سے تقسیم کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے اور بکریوں کے قد ایک جیسے نہیں ہوتے اور طاقت کے اعتبار سے بھی ان میں فرق ہوتا ہے۔ اس طرح اونٹوں کا معاملہ ہے، لیکن تقسیم کرتے وقت اس قسم کے فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جانوروں کی قیمت مقرر کرنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جب ایسا کیا جائے گا تو اس اندازے سے کیا جائے گا کہ اس حیثیت کا اونٹ ہے اور اس حیثیت کی بکریاں ہیں۔ اونٹ اور بکریوں کی مختلف اقسام ہیں۔ دونوں کی حیثیت دیکھ کر قیمت مقرر کی جائے گی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قیمت کا تعین کر کے جانوروں کا تبادلہ ہو گا۔ اس سے بہت دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ بکریوں کی تقسیم تعداد کے اعتبار سے ہے، اس میں قیمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ (2) واضح رہے کہ اختیاری حالات میں تو جانور کو گلے ہی سے ذبح کیا جائے گا، البتہ اضطراری حالات میں کسی بھی مقام سے ذبح کیا جا سکتا ہے، نیز ذبح کرتے وقت بسم الله الله أكبر کہنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی بسم الله بھول جائے یا اسے شک ہو کہ تکبیر پڑھی ہے یا نہیں تو کھاتے وقت بسم الله پڑھ لی جائے۔