قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الوَعْدِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَفَعَلَهُ الحَسَنُ وَذَكَرَ إِسْمَاعِيلَ: {إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الوَعْدِ} [مريم: 54] وَقَضَى ابْنُ الأَشْوَعِ، بِالوَعْدِ وَذَكَرَ ذَلِكَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ وَقَالَ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺمَ وَذَكَرَ صِهْرًا لَهُ، قَالَ: «وَعَدَنِي فَوَفَى لِي» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَرَأَيْتُ إِسْحَاقَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَحْتَجُّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَشْوَعَ»‏

2681. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ، أَنَّ هِرَقْلَ قَالَ لَهُ: سَأَلْتُكَ مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَزَعَمْتَ: «أَنَّهُ أَمَرَكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصِّدْقِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ»، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کو پورا کردیا ۔ اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس وصف سے کیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے تھے ۔ اور سعید بن الاشوع نے وعدہ پورا کرنے کے لیے حکم دیا تھا ۔ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا ، اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ اپنے ایک داماد ( ابوالعاص ) کا ذکر فرمارہے تھے ، آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ، ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ اسحاق بن ابراہیم کو میں نے دیکھا کہ وہ وعدہ پورا کرنے کے وجوب پر ابن اشوع کی حدیث سے دلیل لیتے تھے ۔ امام بخاری اور بعض علماءکا یہی قول ہے کہ وعدہ پورا کرنا چاہئے، اگر کوئی نہ کرے تو قاضی پورا کرائے گا۔ لیکن جمہور علماءکہتے ہیں کہ وعدہ پورا کرنا مستحب ہے اور اخلاقاً ضروری ہے۔ پر قاضی جبراً اسے پورا نہیں کراسکتا۔ ازروئے درایت امام بخاری ہی کا قول صحیح ہے کہ عدالت فیصلہ کرتے وقت ایک حکم جاری کرتی ہے گویامدعیٰ علیہ سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے گویا اس پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کررہا ہے۔ اب گھر جاکر وہ اس حکم پر عمل نہ کرے اور مدعی کو کورا جواب دے تو عدالت پولیس کے ذریعہ اپنے فیصلہ کا نفاذ کرائے گی۔ حضرت امام کا یہی منشا ہے اور دنیا کا یہی قانون ہے۔ اسی مقصد سے حضرت امام بخاری نے کئی احادیث اور آثار نقل کردئیے ہیں۔ اگر عدالتی حکم کو کوئی شخص جاری نہ ہونے دے اور تسلیم کے وعدے سے پھر جائے اور عدالت کچھ نہ کرسکے تو یہ محض ایک تماشہ بن کر رہ جائے گا۔

2681.

حضرت ابن عباس  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ابو سفیان  ؓ سے شاہ روم ہرقل نے کہا: میں نے تجھ سے ان(رسول اللہ ﷺ) کے متعلق سوال کیا تھا کہ وہ تمھیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ تو نے کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی، ایفائے عہد اور امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ کی ہی صفات ہوتی ہیں۔