تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ کا مقصد ہے کہ اس آیت کے مخاطب دو قسم کے لوگ ہیں: ایک تو وہ جو مال کے وارث ہوں گے، جیسے عصبات وغیرہ ہیں۔ انہیں حکم ہے کہ تقسیم وراثت کے وقت اپنے حصے سے غرباء اور مساکین کو کچھ نہ کچھ ضرور دیں۔ یہ استحبابی حکم ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو وارث نہیں بلکہ متصرف ہیں جیسا کہ یتیم کا متولی ہے۔ اسے حکم ہے کہ وہ معذرت کرے کہ میں خود کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، اس لیے کچھ دینے سے معذرت خواہ ہوں۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ اس آیت میں خطاب ورثاء کے لیے ہے کہ وہ دو کام کریں: ایک یہ کہ وہ تقسیم ترکہ کے وقت غرباء، مساکین اور رشتے داروں کو کچھ نہ کچھ دیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ اگر مال وراثت کم ہے تو اچھے انداز سے معذرت کریں۔ (3) اہل علم کی ایک جماعت کا موقف ہے کہ مذکورہ آیت میراث کے مشروع ہونے کی وجہ سے منسوخ ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ آیت محکم ہے اور اس میں امر استحباب کے لیے ہے۔ واللہ أعلم