قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شملئل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عُمَرُ: «اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي بَلَدِ رَسُولِكَ»

2788. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ - وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ - فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ ، شَكَّ إِسْحَاقُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهمْ، فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ» - كَمَا قَالَ فِي الأَوَّلِ - قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: «أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ»، فَرَكِبَتِ البَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور حضرت عمر ؓ نے دعاکی تھی کہ اے اللہ ! مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر ( مدینہ طیبہ ) میں شہادت کی موت عطا فرمائیو ۔

2788.

حضرت انس   ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان  ؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور وہ آپ کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ اور حضرت ام حرام  ؓ حضرت عبادہ بن صامت  ؓ کے نکاح میں تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے تو اس نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ فراغت کے بعد وہ آپ کے سرمبارک سے جوئیں نکالنے لگی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کو نیند آگئی۔ پھر آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی تھے۔ اور سمندر کے وسط میں اپنی سواریوں پر سوار تھے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان ہیں۔‘‘ الفاظ کا یہ شک راوی حدیث اسحاق کو ہوا۔ ام حرام نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعافرمادی، پھرآپ اپنا سر مبارک رکھ کر سوگئے۔ اس مرتبہ بھی جب آپ بیدار ہوئے تو آپ مُسکرارہے تھے۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کیے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں جنگ لڑنے کے لیے جارہے ہیں۔‘‘ جیسا کہ پہلی مرتبہ فرمایاتھا۔ ام حرام نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پہلے لوگوں میں سے ہو۔‘‘ حضرت ام حرام  ؓ نے حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان  ؓ کے زمانے میں بحری سفر اختیار کیا۔ جب وہ سمندر سے باہرنکلیں تو اپنی سواری سے گر کر ہلاک (شہید) ہوگئیں۔