تشریح:
1۔حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں حضرت معاویہ ؓ نے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی۔اجازت ملنے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کےخلاف جنگ لڑنے کے لیے سمندری سفرکیا۔اس لشکر میں حضرت ابوذرغفاری ؓ ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ ،ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓاور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین شامل تھے۔اس غزوے میں حضرت ام حرام شہید ہوئیں۔شہادت کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے۔2۔امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مرد جہاد میں شریک اورشہادت کی دعا کرسکتا ہے اسی طرح عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے کہ اللہ مجھے مجاہدین میں شامل فرما،اللہ!مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے دور خلافت میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ جہاد کے لیے جاتی تھیں اور ان کے کھانے ،پینے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ 4۔رسول اللہ ﷺ اس خوشی میں مسکرائے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کو بھی جہاد کے ذریعے سے غلبہ نصیب ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔بہرحال رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور حدیث میں مذکور یہ بحری سفر فتح افریقہ کا سبب بنا۔ 5۔ واضح رہے کہ حضرت ام حرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں،اس لیے آپ ان کے گھر اکثر آیا جایا کرتے تھے۔وہ بھی آپ کے لیے ماں جیسی شفقت سے پیش آتی تھیں۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنها ۔