تشریح:
1۔ اس حدیث میں حقیقی اسلام کی علامت اس بات کو قراردیا گیا ہے کہ مسلمان سلام کی کثرت کرتا ہو، یعنی سلام کو تعارف یا کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہ کرے بلکہ ہر سامنے آنے والے کو سلام کرے۔ لیکن اس میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی۔ نیز جو اپنی بد کرداری کی وجہ سے خود کو دعائے سلامتی کا مستحق نہ بنائے اسے بھی سلام کرنا درست نہیں، جیسے کوئی شخص علانیہ زنا کرتا اور شراب پیتا ہو تو وہ مستحق سلام نہیں ہے۔ اگر فاسق صاحب اقتدار ہو اور اندیشہ ہو کہ اگر میں نے اسے سلام نہ کیا تو یہ میرے پیچھے پڑجائے گا تو ایسی صورت میں سلام کی اجازت ہے۔