قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَنْ تَكَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ وَالرَّطَانَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ} [الروم: 22]، {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ} [إبراهيم: 4]

3071. حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَنَهْ سَنَهْ» - قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ -، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهَا»، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْلِي وَأَخْلِفِي ثُمَّ، أَبْلِي وَأَخْلِفِي، ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِفِي» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” ( اللہ کی نشانیوں میں ) تمہاری زبان اوررنگ کا اختلاف بھی ہے‘‘ ۔ اور ( اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ) ” ہم نے کوئی رسو ل نہیں بھیجا ‘ لیکن یہ کہ وہ اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا تھا۔‘‘امام بخاری کا اس باب کے لانے سے یہ مطلب ہے کہ ایک زبان کا سیکھنا اور بولنا درست ہے کیونکہ سب زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں۔انگریزی ہندی کا بھی یہی حکم ہے۔اور دوسری آیت میں ہے (وان من امۃ الا خلا فیہا نذیر)تو معلوم ہوا کہ ہر ایک زبان پغمبر کی زبان ہے‘کیونکہ اس قوم میں جو پغمبر آیا ہوگا وہ ان ہی کی زبان بولتا ہوگا ان آیتوں سے یہ ثابت ہوا کہ انگریزی‘ہندی‘مرہٹی‘روسی‘جرمنی زبانیں سیکھنا اور بولنا درست ہے زبانوں کا تعصب انسانی بدبختی کی دلیل ہے‘ہر زبان سے محبت کرنا عین منشائے الٰہی ہے۔لفظ رطانہ راء کی زیر و زبر ے ساتھ غیر عربی میں بولنا۔آیت(وما ارسلنا الخ)میں مصنف کا اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت اقوام عالم کے لئے ہے اس سلئے بھی ضروری ہوا کہ آپ دنیا کی سا ری زبانوں کی حمایت کریں ان کو خود بذریعہ ترجمان سمجھیں۔ﷺ

3071.

حضرت اُم خالد بنت خالد بن سعید  ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سنہ، سنہ۔“ حبشی زبان میں اس کے معنیٰ ہیں۔ ”اچھا۔“  حضرت اُم خالد  ؓ کہتی ہیں، پھر میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹ پلائی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کو چھوڑدو۔“ پھر فرمایا: ’’کرتا پرانا کرو اور اور اسے پہن کر پھاڑو۔ پھر کرتا پرانا کرو اور پھاڑو۔ پھر پرانا کرو اور پھاڑو۔“ (آپ نے درازی عمری کی دعا فرمائی۔) حضرت عبد اللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں کہ وہ قمیص اتنی دیر تک باقی رہی کہ زبانوں پر اس کا چرچا ہونے لگا۔