تشریح:
1۔ اس حدیث سے بھی خوارج کی تردید ہوتی ہے کہ عمل قتال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’مسلمان‘‘ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں بایں حالت اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔ حدیث کےآخری حصے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلی ارادہ جب مصمم ہو جائے تو اس پر بھی مؤاخذہ ہو گا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک اس کے مطابق عمل نہ کریں۔ ان دونوں باتوں میں تضاد نہیں کیونکہ ایسے خیالات پر مؤاخذہ نہیں ہوگا جو پختہ نہ ہوں، یعنی آئیں اور گزر جائیں، البتہ مصمم ارادے اور پختہ عزم پر ضرور مؤاخذہ ہوگا اگرچہ اس کے مطابق عمل نہ کیا جا سکے۔ (شرح الکرماني:444/1)
2۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا اس بنا پر خود بھی جنگ جمل میں شریک نہ ہوئے اور حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی شرکت سے روک دیا حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جب لڑنے کے لیے نکل آئیں اور جنگ حق کی بنا پر نہ ہو بلکہ ہوس ملک گیری یا عصبیت وغیرہ اس کی محرک ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں اور اگرمنشا صحیح اور لڑنے والے حق کی حمایت میں جارہے ہوں اور ہر مسلمان اپنی پوری احتیاط اور تحقیق کے ساتھ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہو رہا ہو تو دونوں جنتی ہیں کیونکہ حق پر لڑنے کی قرآن نے خود اجازت دی ہے۔ ( الحجرات:49/9) یہی وجہ ہے کہ حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تو حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر واپس ہو گئے لیکن جب غور وفکر کیا تو اپنی رائے سے رجوع کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دیا البتہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت اخلاص واحتیاط کے ساتھ لڑائی کی شدت کم کرنے کی کوشش پر مبنی تھی۔ ( فتح الباري:1؍ 117) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔
3۔ جنگ جمل کی تفصیلات آئندہ بیان ہوں گی البتہ عنوان کی مناسبت سے اس مقام پر اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہوئے وہ خواہ قاتل ہوں یا مقتول وہ حدیث میں مذکوروعید سے خارج ہیں اور جن لوگوں کا مقصد محض فساد برپاکرنا تھا۔ وہ قاتل ہوں یا مقتول ازروئے حدیث جہنمی ہیں۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف جو لوگ حق کی حمایت کے لیے کھڑے ہوئے وہ (بِإِذْنِ اللَّهِ) جنت میں جائیں گے لیکن جن لوگوں کا مقصد حصول اقتدار عہدہ طلبی عصبیت یا اور کوئی دنیاوی غرض تھی ان کے متعلق حدیث نبوی ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عصبیت کا مفہوم یہ ہے کہ حالات کی تحقیق کیے بغیر صرف یہ سمجھ کر کسی کی مدد کی جائے کہ یہ اپنا آدمی ہے۔